Maktaba Wahhabi

736 - 822
خمس اور فتح کی بشارت دے کر اپنے قاصد کو امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔[1] ڈاکٹر عبدالرحمن شجاع بیان کرتے ہیں کہ ملک شام کے شہر مجاہدین کے ایک ہی حملے میں پے درپے فتح ہوتے چلے گئے، چونکہ سلطنت روم بھی شکست کی ہزیمت اٹھائے ہوئے تھی وہ اس پوزیشن میں نہ تھی کہ پیش قدمی کا سوچتی، اس طرح شہر بیروت صید ، نابلس ، لد ، حلب اور انطاکیہ مسلمانوں کے زیر تسلط آگئے اور قیساریہ ملک شام کا آخری شہر تھا جو معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں فتح ہوا اور یہ واقعہ بیت المقدس کی فتح کے بعد کا ہے۔[2] بیت المقدس کی فتح ۱۶ ہجری جس وقت مسلمانوں نے فتح کے ارادے سے بیت المقدس کا رخ کیا اس وقت فلسطینی حکومت کی کمان ارطبون رومی کے ہاتھ میں تھی، وہ مقام و مرتبہ میں بادشاہ روم کے ہم پلہ ہوا کرتا تھا، یہ شخص دور اندیش، جنگی سوجھ بوجھ رکھنے والا اور اپنے فیصلہ پر ٹھوس اقدام کرنے والا تھا۔ اس نے جنگی حکمت عملی کے تحت ’’رملہ‘‘ اور ’’ایلیا‘‘ (بیت المقدس) میں بڑی بڑی افواج اتار دی تھیں۔[3] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے خط لکھ کر امیرالمومنین کو صورت حال سے آگاہ کیا اور مستقبل کی کارروائی کے لیے مشورہ کرتے ہوئے اجازت مانگی۔ اس موقع پر عمر رضی اللہ عنہ نے جو بات کہی وہ آج بھی شہرت کی حامل ہے۔ آپ نے کہا تھا: ’’ہم نے روم کے ارطبون کو عرب کے ارطبون سے ٹکرا دیا ہے، دیکھو اب کیا ظہور ہوتا ہے۔‘‘ [4] وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ دونوں ہی اپنی اپنی قوم کے زیرک وزبردست جرنیل ہیں۔ ۱۵ ہجری میں اجنادین پر مسلمانوں کی دوبارہ لشکر کشی اور رومیوں پر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے غلبہ نے فلسطین کا راستہ ہموار کر دیا تھا[5] اور اب معرکہ بیت المقدس کا عملی نفاذ ہونے جا رہا تھا۔ رومی قائد ارطبون نے اپنے لشکر جرار کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے رملہ اور ایلیا (بیت المقدس) میں پھیلا دیا تھا۔ دونوں شہروں کا درمیانی فاصلہ اٹھارہ (۱۸) میل ہے۔ ارطبون کا مقصد یہ تھا کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ان دونوں عظیم شہروں پر مسلمانوں کی طرف سے کوئی فوجی کارروائی نہ ہو سکے۔ اور یقینا دونوں شہر اہمیت کے حامل تھے۔ ’’رملہ‘‘ فلسطین کا بڑا قصبہ اور ’’ایلیا‘‘ (بیت المقدس) اس کا سب سے بڑا شہر تھا۔ [6] رومی بادشاہ کی طرف سے ’’ارطبون‘‘ کو ’’ایلیا‘‘ کا حاکم مقرر کیا گیا تھا، یاد رہے کہ یہ وہی ارطبون ہے جو اجنادین میں شکست کھانے کے بعد اپنے لاؤ لشکر سمیت یہاں بھاگ آیا تھا اور اس وقت رملہ کا حاکم تذارق تھا۔[7] اور اب آئندہ صفحات میں ان مراحل کا ذکر ہوگا جن
Flag Counter