Maktaba Wahhabi

777 - 822
اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے کہ کسی معرکہ کی فتح یابی پر بھی اتنی مسرت سے نعرہ نہ لگاتے تھے اور اگر کوئی اپنے مذہب پر باقی رہنے کا اظہار کرتا تو دلی بے چینی اور افسوس کا اظہار کرتے گویا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوچکے تھے اور اب دین اسلام سے نکل رہے تھے۔ اس واقعہ میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایفائے عہد کا اخلاقی فریضہ ادا کرنے میں صحابہ کرام کس قدر مخلص و محتاط تھے، عمر رضی اللہ عنہ کی تحریر میں اخلاص و وفا کی یہ لگن اچھی طرح جھلکتی ہے: ’’جو قیدی مختلف شہروں میں منتشر ہوگئے ہیں ہم انہیں واپس کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘ اور دوسری روایت کے الفاظ میں ’’ہم ایسی کسی چیز پر مصالحت کرنا پسند نہیں کرتے جسے ہم پورا نہ کر سکیں۔‘‘[1] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ دشمنوں سے کوئی معاہدہ کرنے سے پہلے اس عہد وپیمان کو نبھانے کے بارے میں سوچتے ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان کسی وقت اپنے عہد وپیمان کو پورا نہ کر سکیں اور یہ اخلاقی مظاہرہ ایفائے عہد کا سب سے اونچا مقام ہے۔ اخلاق حسنہ فتح ونصرت کی علامت ہیں۔ جو شخص کسی سے معاہدہ کرتا ہے پھر اسے پورا نہیں کرپاتا، وہ معذور مانا جاتا ہے، لیکن اگر وہی شخص کسی چیز پر معاہدہ کرنے سے پہلے معاہدہ نبھانے سے متعلق ضروری احتیاطی اقدامات پر غور کر لے تاکہ جھوٹا اور غدار ثابت نہ ہو تو یہ اس کی اعلیٰ ظرفی اور دور اندیشی ہے۔[2] عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما : سیّدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج لے کر اسکندریہ کی طرف بڑھے۔ راستے میں وہاں کے باشندوں سے کئی مقامات پر مزاحمتیں ہوئیں اور سب میں مسلمانوں کو کامیابی ملی۔ اس دوران میں باشندگان کریون سے محاذ آرائی کرتے ہوئے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کو کئی زخم آئے۔ ان کے پاس ان کے والد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا قاصد ان کی خبر گیری کے لیے آیا تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: أقول اذا ما جاشت النفس اصبری فعما قلیل تحمدی أو تلامی ’’جب میری جان نکلنے لگے گی تو میں اس سے کہوں گا کہ (موت کی تکلیف پر) صبر کر، تھوڑی ہی دیر میں تیری تعریف کی جائے گی یا تیری ملامت کی جائے گی۔‘‘ جب قاصد واپس چلا گیا اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بات سنائی تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: بے شک وہ میرا بیٹا ہے۔[3] اس واقعہ میں علم وعبادت کے بے تاج بادشاہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے صبر و تحمل کی ایک انوکھی مثال ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہے۔[4]
Flag Counter