Maktaba Wahhabi

145 - 253
دوسرے مقام پر فرمایا: (قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا ﴿١٠٠﴾) (سورۃ الاسراء: آیت 100) یعنی: ’’آپ فرما دیں کہ اگر تمہارے پاس میرے رب کی رحمت کے خزانے بھی ہوتے تو تم ان کے ختم ہو جانے کے ڈر سے انہیں روک روک کر رکھتے‘‘۔ معلوم ہوا کہ کسی کے پاس بھی رحمت کے خزانے نہیں ہیں اگر ہوتے تو بھی کوئی کسی کو نہ دیتا۔ مگر وہ اللہ جس کی رحمت ہر چیز پر وسیع ہے اور خود آوازیں دے دے کر بلا رہا ہے کہ میری رحمت سمیٹ لو، میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ پھر بھی اس کی رحمت پر توکل نہ کرنا غیروں کے در سے رحمتیں حاصل کرنے کی امیدیں رکھنا گمراہی اور شرک نہیں تو اور کیا ہے؟ یہی تقاضا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پرزور الفاظ کا ہے کہ صرف اللہ سے ہی رحمتوں کی امید لگائی جائے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: (وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ ﴿٥٦﴾) (سورۃ الحجر: آیت 56) یعنی: ’’اپنے رب کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس ہو سکتے ہیں‘‘۔ سچ پوچھیے! جب یاس و امید کے گہرے بادل چھا جائیں اور رجاء و امید کی کوئی کرن نظر نہ آتی ہو تو رحمتِ خداوندی ایک صادق مومن اور کامل مسلمان کے لیے بہترین سہارا ہوتی ہے۔ ساری خدائی مایوس ہو جائے، بھلا وہ کب مایوس ہونے لگا؟ (25) توکل صرف اللہ پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت میں ہم توحید کا یہ پہلو بھی مزین پاتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کمال درجے کا توکل اللہ تعالیٰ کی ذات پر رکھنے والے تھے۔ پوری برادری سے توحید و شرک کے جھگڑے میں براءت کا اظہار کر کے تمام ظاہری اور مادی سہاروں کو
Flag Counter