Maktaba Wahhabi

173 - 253
ابراہیم علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ کے حوالے سے ثابت قدمی اور استقامت اس کا نام نہیں کہ انسان تن آسانی کے لیے رہبانیت اختیار کر لے یا لوگوں میں رہتے ہوئے اپنی تنہائی کی آڑ میں عمل بالمعروف اور نہی عن المنکر سے خاموش رہے اور یہی کہہ دے کہ جہاں کوئی لگا ہے لگا رہے۔ بلکہ سیرتِ ابراہیم علیہ السلام کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان اگرچہ اکیلا ہی ہو تو بھی حق بات کا پرچار کرتا رہے۔ بلکہ اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا سہارا لیتے ہوئے حق پر ڈٹ جائے اور تبلیغ میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((المؤمنُ الذي يخالطُ الناسَ ويَصبرُ على أذاهم خيرٌ منَ الذي لا يُخالطُ الناسَ ولا يصبرُ على أذاهمْ)) [1] ترجمہ: ’’وہ مومن جو لوگوں میں مل جل کر رہتا ہے اور ان کی تکالیف پر صبر کرتا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو لوگوں میں مل جل کر نہیں رہتا اور ان کی تکالیف پر صبر نہیں کرتا‘‘۔ (6) استقامت اور قرابتیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرتِ پاک کا یہ مظہر ہے کہ آپ علیہ السلام نے قرابت اور رشتہ داریوں کو قائم رکھنے کی مصلحت کی آڑ میں توحیدِ خالص اور منہجِ دین میں لچک نہیں آنے دی، بلکہ حنیفیت اور استقامت اختیار کرتے ہوئے تمام تر قرابتوں کو خیرباد کہہ دیا پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس طرزِ عمل کو رہتی دنیا کے مسلمانوں کے لیے نمونہ بنا دیا سورۃ ممتحنہ کا شانِ نزول آپ علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے اسی پہلو کی غمازی کرتا ہے کہ جب ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ مکہ میں موجود اپنے عزیز و اقارب کی حفاظت کے لیے اہل مکہ کے مشرکین پر احسان کرنے کی غرض سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جنگی راز
Flag Counter