Maktaba Wahhabi

176 - 253
ارشاد فرمایا: (إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ) (سورۃ ہود: آیت 46) یعنی: ’’اے نوح علیہ السلام اس کے عمل صالح نہیں لہٰذا یہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے‘‘۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین میں استقامت کے لئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا واضح تقاضا یہ ہے کہ رشتہ داری کی لاج میں دین کو بالکل نہ چھوڑ دیا جائے اور نہ ہی دین کو ٹھیس پہنچائی جائے، بلکہ رشتہ داریوں کو خیرباد کہتے ہوئے دین کو گلے لگا لیا جائے، اسی طرح کسی عزیز یا دوستوں کی دوستی میں شرک و بدعت یا رسم و رواج کو قبول نہ کیا جائے، اسی طرح کسی بڑے بزرگ کی محبت میں آ کر اس کے اقوال و افعال کو اللہ اور اس کے رسول کے فرامین سے زیادہ محبوب نہ مانا جائے بلکہ استقامت فی الدین یہ ہے کہ ان کی محبت کو اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کی محبت پر قربان کر دیا جائے۔ اب سوچئے ذرا کہ اس انسان کو راسخ فی الدین کیسے کہا جا سکتا ہے، جو خوشی غمی میں رسم و رواج ترک کرنا دشوار سمجھے اور دین کی مخالفت کی پرواہ نہ کرے؟ اور پھر ان لوگوں کی دین حنیف سے کتنی روگردانی ہے جو قومیت کے دین کے پیروکار ہیں؟ کیا حال ہو گا ان لوگوں کا جو آباء و اجداد کے دین کو محبوب جانتے ہیں اور اللہ کے دربار میں ایسا مذہب کیسے قبول ہو گا جو مولویوں، درویشوں اور اماموں کی محبت کے رشتہ میں قبول کر کے اس پر اندھا دھند قائم رہا جائے؟ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ یہ لوگ دینِ اسلام قبول کرنے کے بعد ان سب ناطوں اور محبتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف دینِ اسلام پر قائم رہ جاتے اور ڈٹ کر اسی پر عمل پیرا ہوتے۔ (7) مشرک رشتہ داروں کے لئے دعا کی ممانعت اور استقامت رشتہ داریوں کی وجہ سے دین میں مصلحتیں گھڑتے ہوئے تبلیغ میں لچک قبول کرنا تو دور کی بات ہے، بلکہ اگر قریبی سے قریبی رشتہ دار شرک پر مر جائے تو اس کو اللہ کا دشمن
Flag Counter