Maktaba Wahhabi

193 - 253
مشاورت ہے۔ (12) نیکی کی وصیت کرنا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو نیک اور صالح بنانے کے لیے سازگار ماحول تلاش کیا، پھر نیکی کی ترغیب کی اور صحیح تربیت کی، ان کے نیک بننے کے لیے اللہ سے دعائیں کیں، پھر نیک کاموں میں اپنے ساتھ شریک رکھا، پھر نیکی کے کاموں میں مشاورت کی، پھر اپنی عمر کے ہر ہر مرحلہ میں اولاد کے بڑی عمر کو پہنچنے کے باوجود ان کی تربیت سے پہلوتہی نہیں کی، اتنے طویل اہتمام کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں مزید انہیں نیکی پر کاربند رہنے کی وصیت فرماتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّٰهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٣٢﴾) (سورۃ البقرۃ: آیت 132) یعنی: ’’اور ابراہیم (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دینِ اسلام کو منتخب فرما لیا ہے، پس تم اسلام ہی پر مرنا‘‘۔ یعنی تمہاری موت اسلام پر آنی چاہیے لہٰذا تم ہر وقت مسلمان بن کر رہو۔ آج اکثر والدین کا حال یہ ہے کہ جب ان کا بچہ عالمِ شباب میں پہنچ جاتا ہے اور شادی شدہ ہو جاتا ہے تو وہ ہر قسم کی تربیت سے اپنا منہ اس سے موڑ لیتے ہیں، اگر توجہ دلائی جائے تو کہتے ہیں ’’بس کیا کریں بچہ بڑا ہے، میری تو مانتا نہیں، اسے کیا کہوں، کیسے سمجھاؤں؟‘‘ وغیرہ ایسے والدین کے ذہن میں ایک یہ نکتہ راسخ ہو چکا ہے کہ والدین کا کام بچے کی شادی تک اس کی تربیت کرنا ہے اس کے بعد والدین بری الذمہ ہیں، یہ نکتہ نظر بالکل غلط ہے۔ عجیب دورنگی اور تضاد ہے کہ دینی تربیت سے دست کش ہونے کے لیے ہمارے
Flag Counter