Maktaba Wahhabi

203 - 253
(4) خلافِ شرع کاموں میں والدین کی فرمانبرداری سے ممانعت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ان کے باپ آزر نے کہا: (أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا ﴿٤٦﴾) (سورۃ مریم: آیت 46) یعنی: ’’اے ابراہیم (علیہ السلام)! کیا تو میرے خداؤں سے روگردانی کرتا ہے اگر باز نہ آیا تو میں تجھے رجم کر ڈالوں گا، تو میری نظروں سے دور ہا جا‘‘۔ مندرجہ بالا اقتباس سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے باپ کے احترام اور اس کی فرمانبرداری میں اس کے دین کو قبول نہیں کیا بلکہ اس سے روگردانی کی، کیونکہ آپ علیہ السلام جانتے تھے کہ دین والدین کے طریقے کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کا نام ہے۔ دین وحی الٰہی کا نام ہے اور بلاتحقیق والدین کے دین کی اتباع شیطان کی تقلید اور گمراہی ہے اسی لیے جب آپ علیہ السلام نے قوم سے پوچھا: (مَا هَـٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ﴿٥٢﴾ قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ ﴿٥٣﴾ قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٥٤﴾)(سورۃ الانبیاء: آیت 52 تا 54) یعنی: ’’یہ مورتیاں کیا چیز ہیں، جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے، تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بلاشبہ تم اور تمہارے آباء سب واضح گمراہی میں ہو‘‘۔ گویا کہ آباء کی تقلید اور دینی معاملے میں اسلام کے خلاف والدین کے طریقے پر جمے رہنے کو آپ علیہ السلام نے گمراہی کہا اور اس کی مذمت کی، جس سے واضح ہوا کہ دینی معاملہ میں تحقیق اور خالص صراط مستقیم کو ہی اپنانا چاہیے۔ والدین اگر جھگڑیں بھی تو دین
Flag Counter