Maktaba Wahhabi

223 - 253
ہیں، اگر جانتے ہو تو بتاؤ کہ دو فریقوں میں سے امن کا زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘۔ (9) باطل کا مجذوبانہ واویلا اور مبلغ حق کا ثبات سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے تبلیغ کے میدان میں جو مشاہدات کیے اور جس نتیجہ کو پہنچے وہ یہی تھا کہ باطل ہمیشہ حق سن کر جھگڑتا ہے اور رعب دکھا کر دبانے کی کوشش کرتا ہے، اگر اس کے جھوٹ کا بھانڈا پھوٹنے لگے تو شور مچانا اس کی فطرت ہے، مثلاً آپ علیہ السلام نے باپ کو بڑی نرمی کے ساتھ حق سچ سنایا تو وہ بپھر گیا اور کہنے لگا: (قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا ﴿٤٦﴾) (سورۃ مریم: آیت 46) یعنی: ’’اے ابراہیم (علیہ السلام) کیا تو میرے خداؤں سے روگردانی کرتا ہے، اگر باز نہ آیا تو تجھے رجم کر ڈالوں گا، جاؤ میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ‘‘۔ اسی طرح بڑے دلائل کے ساتھ قوم کو توحید سمجھائی، مگر انہوں نے واویلے سے کام لیا اور جھگڑا کرنے لگے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّٰهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ﴿٨٠﴾ وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٨١﴾) (سورۃ الانعام: آیت 80، 81) یعنی: ’’اور قوم نے آپ (علیہ السلام) سے جھگڑنا شروع کر دیا آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا میرے ساتھ میرے رب کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ اسی نے تو مجھے ہدایت دی ہے اور اگر میرا رب نہ چاہے تو میں تمہارے شریکوں سے بالکل نہیں ڈرتا، میرے رب کے علم نے ہر ایک چیز کو گھیرا ہوا ہے، کیا تم نصیحت
Flag Counter