Maktaba Wahhabi

225 - 253
باطل پرست لوگ حق تسلیم کرنے کے بجائے اکثر حق پرستون کے دشمن بن جایا کرتے ہیں اور پھر داعی الی الحق علماء کو دھمکیاں دیتے ہیں، ان کے قتل کے منصوبے بناتے ہیں، یہ حق کی علامت ہے کہ حکمرانوں تک اسلام دشمنی میں شریک ہوتے ہیں، علماء پر زبان بندیاں ہوتی ہیں، اِن کا لٹریچر ضبط کیا جاتا ہے، ان کی اصلاحی کاوشوں پر روڑے اٹکائے جاتے ہیں، مدارس بند کروانے کے پروگرام بنتے ہیں، دینی دفاتر پر پابندیاں لگتی ہیں، علماء کو شہید کروا دیا جاتا ہے، جبکہ باطل اسی طرح دندناتا پھرتا ہے، چہارسو اس کے لیے آزادیاں ہیں، نہ اسے کوئی لگام دینے والا اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا۔ مگر سیرتِ ابراہیم علیہ السلام اور ملتِ حنیفیہ کے پیروکار مبلغین نے کبھی بھی ان کے کھوکھلے رعب کی پرواہ نہیں کی۔ (10) مبلغِ دین اور قوم دشمنی کا سامنا دین کی تبلیغ پر تکالیف کا آنا اور مصائب و مشکلات سے واسطہ پڑنا لامحالہ ہے، مگر اس پر صبر کرنا اور ہر طرح کی قربانی دینا دعوتِ دین کا چوتھا تقاضا ہے۔ آسان الفاظ میں کہ تبلیغ کا راستہ کانٹوں، پتھروں اور گالیوں کا راستہ ہے، گلپاشی اور استقبال کا راستہ نہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بڑے ہی سنگین حالات کا مقابلہ کیا، ان میں سے ایک یہ کہ دین کی تبلیغ کے بدلے قوم سے عداوت اور دشمنی مول لی۔ جب دین کے لیے قوم سے بائیکاٹ کی ضرورت پڑی تو آپ علیہ السلام نے خندہ پیشانی سے یہ قربانی بھی پیش کی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللّٰهِ وَحْدَهُ) (سورۃ الممتحنہ: آیت 4) یعنی: ’’تمہارے لیے ابراہیم (علیہ السلام) اور اس پر ایمان لانے والوں میں بہترین
Flag Counter