Maktaba Wahhabi

235 - 253
سے بھر جائے۔ اس طرح دین کی روحانیت ایک خوشی کی لہر پیدا کر سکتی ہے۔ گھروں پر سایہ فگن ہو سکتی ہے اور پورا مسلمان معاشرہ اللہ کا پیارا اور چنیدہ بن سکتا ہے، ہمادی دین سے وابستگی کا عالم تو یہ ہے کہ ہم سمجھنے لگے ہیں کہ اذان پڑھنا صرف مولوی صاحب کا ہی کام ہے اور دوچار ضعیف بزرگوں کا مسجد میں چلا آنا اقامۃ الصلوٰۃ کے فریضہ سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی ہے۔ دین پر عمل تو بس رسمی سا کام رہ گیا ہے۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اگر مجھے عورتوں اور بچوں کا خیال نہ ہوتا تو میں عشاء کی نماز کا کسی دوسرے کو حکم دے دیتا اور جو نوجوان مسجد میں نہیں آئے ان کو ان کے گھروں سمیت جلا دیتا‘‘۔ [1] آج مساجد رو رو کر اپنی زبان حال سے مسلمان نوجوان کو پکار رہی ہیں کہ آؤ اور میرے حقوق ادا کرو اور اپنی آخرت بناؤ۔ مساجد کا احترام ان کی صفائی ستھرائی اور آبادی پیغمبرانہ شیوہ ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو مسجدوں کو آباد کر کے اپنے گھر جنت میں بناتے ہیں: ((عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّان رضي اللّٰه عنه قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم مَنْ بنى للّٰهِ مسجدًا بنى اللّٰهُ لَهُ بيتًا في الجنَّةِ)) [2] معمار بیت اللہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے حوالے سے حقوق مساجد اور آداب مساجد کے بارے میں چند مسائل حاضر خدمت ہیں: 1۔ تعمیرِ مساجد اور عاجزی و فروتنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو رب تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ میرے گھر، کعبہ شریف کی
Flag Counter