Maktaba Wahhabi

252 - 253
4۔ بھولے بھٹکوں کی رہنمائی کرنا عام طور پر کسی راہ گیر کو سیدھی راہ پر لگانا ’’راہنمائی‘‘ کہلاتا ہے جبکہ کسی کو دین کے لحاظ سے گمراہ پا کر صحیح راستہ اور صاف دین پر لگانا اصل رہبری اور راہنمائی ہے، یہ رہبری بالخصوص نبیوں کا شیوہ اور علمائے حق کی ذمہ داری ہے اور بالعموم ہر مسلمان کا حق ہے کہ اگر دین کے ایک مسئلہ کو بھی جانتا ہو تو اسے دوسروں تک پہنچائے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو ارشاد فرمایا: (يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا ﴿٤٣﴾) (سورۃ مریم: آیت 43) یعنی: ’’اے میرے ابا جان! میرے پاس وہ علم آ چکا ہے جو کہ آپ کے پاس نہیں آیا، لہٰذا آپ میری اتباع کریں، میں آپ کی سیدھی راستے کی طرف رہنمائی کروں گا‘‘۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٥٢﴾) (سورۃ الشوریٰ: آیت 52) یعنی: ’’بلاشبہ آپ سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرماتے ہیں‘‘۔ اصل راہ کا بھولا بھٹکا وہی آدمی ہے جو دین کی راہ سے دور ہے اور اس کی رہنمائی ہی اصل رہنمائی ہے اور یہ اس وقت ہو سکتی ہے جب کسی کے دل میں دوسرے کی خیرخواہی کی تڑپ موجود ہو اور کسی انسان کی گمراہی اس پر ناگوار گزرتی ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کی اتنی فکر ہوتی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تسلیاں دیتے ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ﴿٦﴾) (سورۃ الکہف: آیت 6) یعنی: ’’اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اس
Flag Counter