Maktaba Wahhabi

27 - 253
یعنی: ’’اے میرے ابا جان! آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں اور نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچاتے ہیں، اے ابو جان! میرے پاس وہ علم آ چکا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، لہٰذا آپ میری بات مان لیں، میں آپ کی بالکل سیدھی راہ کی طرف رہبری کروں گا۔ ابو جان! آپ شیطان کی پرستش سے باز آ جائیں شیطان تو اللہ رحمٰن کا بڑا ہی نافرمان ہے۔ اے میرے ابا جان! مجھے خوف لگا ہوا ہے کہ کہیں آپ پر کوئی عذاب الٰہی نہ آ پڑے کہ آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔‘‘ باپ کا تلخ رویہ اور جلاوطنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے باپ کے ادب و احترام کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت شفقت و محبت اور پیار و الفت کے لہجے میں وعظ سنایا، لیکن توحید کا یہ سبق کتنے ہی شیریں اور نرم لہجے میں کیوں نہ ہو، مشرک کے لئے ناقابل برداشت ہی ہوتا ہے، آزر کو نمرود (جو کہ کنعان بن کوش کا بیٹا تھا) کے دربار میں اپنی جاہ و حشمت، مقام و مذہب کا لحاظ بھی تھا اور اپنی معاش سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خوف و اندیشہ بھی، بالخصوص اپنے دین کی اندھی عقیدت کی وجہ سے توحید کی پہلی آواز نہایت عجیب لگی، اسی تعصب و ہٹ دھرمی کی بناء پر آزر نہ تو بیٹے کے اندر خداداد صلاحیتوں کو اور نہ ہی اس کے حیات آفریں پیغام کو سمجھ سکا، چنانچہ حد درجہ نرمی و شائستگی اور ملائمت کے باوجود ظالم باپ کی آنکھیں شعلہ جوالہ بن گئیں اور نتھے پھول گئے، دھاڑتے ہوئے وہی کچھ کہا جو ایک ظالم باپ بالآخر کہہ سکتا ہے، کہنے لگا: (قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا ﴿٤٦﴾) (سورۃ مریم: 46) یعنی: ’’اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے، اگر باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا، جاؤ میری نظروں سے ہمیشہ کے لئے دور ہو جاؤ۔‘‘
Flag Counter