Maktaba Wahhabi

28 - 253
چنانچہ یہ گھر سے نکل جانے کا حکم تھا لہٰذا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے گھر سے نکل جانے میں ہی اپنی اور اپنے دین و اعتقاد کی عافیت سمجھی، چونکہ باپ کے لئے بڑے خیرخواہ، نرم دل اور داعی الی اللہ کی صفات سے آراستہ و پیراستہ تھے، بایں وجہ جاتے ہوئے بھی کسی ناراضگی اور خفگی کا اظہار کرنے اور تندوتیز جملہ کسنے کی بجائے اس کے لئے امن و سلامتی کی دعا کی اور فرمایا: (قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا ﴿٤٧﴾ وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا ﴿٤٨﴾)(سورۃ مریم: 47، 48) یعنی: ’’اللہ آپ کو سلامت رکھے، میں اپنے رب سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا، وہ تو مجھ پر حد درجہ مہربان ہے۔ اور میں تم سے اور جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو سب سے بیزار ہوں، صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور پُرامید ہوں کہ اس کو پکار کر میں محروم نہ رہوں گا۔‘‘ فقیرانہ آئے صدا کر چلے میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے تبلیغ کا دوسرا مرحلہ اور قوم کی طرف رخ سلسلہ تبلیغ میں گھر کے بعد قوم اور خاندان کا نمبر آتا ہے، لہٰذا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اِن کی طرف رخ فرمایا، آپ علیہ السلام نے ہمیشہ تبلیغ میں حکمتوں بھرے انداز اور دلوں کو موہ لینے والے اسالیب اپنائے، جن میں سے ایک انداز ’’ذاتی مشاہدے‘‘ کے ذریعے قوم کو سمجھانا تھا، کیونکہ مومن خود ایک چلتا پھرتا اشتہار ہوتا ہے، اس کے افعال و کردار ہی لوگوں کے لیے تبلیغ کا کام دیتے ہیں۔ حیات بعد از ممات کا آنکھوں دیکھا حال موت کی حقیقت ہر انسان تسلیم کرتا ہے، مگر اکثر مشرک اقوال حیات بعد از ممات
Flag Counter