Maktaba Wahhabi

94 - 253
عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ ﴿٧٦﴾) (سورۃ ہود: آیت 76) اسی طرح یہ بھی ہونا چاہیے کہ فرشتے علم غیب نہیں جانتے ورنہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام بچھڑا ذبح کرنے کے لیے گھر جا رہے تھے تو فرشتے انہیں منع کر دیتے۔ (5) آخرت پر ایمان آخرت پر ایمان عقیدہ توحید کا پانچواں رکن ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ ایمان رکھا جائے کہ ہم سب نے مرنے کے بعد پھر قیامت کے روز زندہ ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اعمال کا حساب و کتاب دینا ہے اور جنت دوزخ برحق ہیں، اہلِ توحید آخرکار جنت میں ضرور جائیں گے اور مشرک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہیں گے۔ ہمیں سیرت ابراہیم علیہ السلام میں یہ بات ملتی ہے کہ آپ علیہ السلام اس دن کا صرف عقیدہ ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ آخرت کی فکر میں ہمیشہ مشغول رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: (وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ ﴿٤٥﴾ إِنَّا أَخْلَصْنَاهُم بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ ﴿٤٦﴾) (سورۃ ص: آیت 45، 46) یعنی: ’’ہمارے بندوں ابراہیم، اسحاق، یعقوب (علیہم السلام) کا تذکرہ کرو جو ہاتھوں اور آنکھوں والے تھے (یعنی دین کی مدد میں قوی اور علمی بصیرت میں ممتاز تھے) ہم نے انہیں ایک خاص بات یعنی آخرت کی یاد کے ساتھ مخصوص کر دیا تھا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی دعاؤں میں آخرت کی فکر اور اس دن کی نجات کا ذکر کثرت سے موجود ہے، کبھی یہ دعا کرتے نظر آتے ہیں: (رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴿٤١﴾)(سورۃ ابراہیم: آیت 41) یعنی: ’’اے ہمارے رب! مجھے، میرے والدین اور تمام مومنوں کو اس دن
Flag Counter