Maktaba Wahhabi

145 - 148
حدیث نبوی کی حمایت اور پروفیسر صاحب کی خرافات کے بارے میں الاعتصام میں پڑھ رہا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے حدیث کی تائید اور حمایت میں قلم اٹھایا ہے۔ مولانا داؤد غزنوی صحیح معنوں میں ایک جید عالم دین تھے۔ ہر مکتب فکر کے علماء ان کے علمی تبحر کے معترف تھے اور ہر مکتب فکر کے علماء ان کا احترام کرتے تھے اور اس احترام کی وجہ ان کی اعتدال پسندی تھی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین‘‘۔ پروفیسر حکیم عبداللہ خان نصر سوہدروی مولانا سید محمد داؤد غزنوی تحریک آزادی کے بلند مرتبہ رہنما اور جید عالم دین تھے ان کا تعلق ایک ایسے علمی خاندان سے تھا جس نے حق و صداقت کی خاطر اتنی تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کیں کہ اس کی تاریخ میں مثال ملنی مشکل ہے۔ میں نے ان کا نام 1921ء میں مولانا محمد اسمٰعیل السلفی سے سنا کہ میں ان دنوں مولانا اسمٰعیل کے پاس گوجرانوالہ میں زیر تعلیم تھا۔ 1919ء میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا کفایت اللہ دہلوی، علی برادران (محمد علی، شوکت علی)حکیم اجمل خان اور دوسرے علماء و سیاسی زعماء کی کوشش سے مجلس خلافت قائم ہو چکی تھی اور 1921ء میں مفتی کفایت اللہ، مولانا احمد سعید، مولانا عبدالباری، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالماجد بدایونی، مولانا آزاد سبحانی، مولانا سید سلیمان ندوی، اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کی سعی و کوشش سے جمعیۃ العلماء ہند بھی قائم ہو چکی تھی۔ 1921ء میں برطانوی حکومت کے خلاف علمائے کرام اور سیاسی زعماء نے آوازہ بلند کیا میں نوجوان تھا۔ میں نے بھی حکومت کے خلاف جلسوں میں تقریریں کرنی شروع کیں۔مولانا داؤد غزنوی بھی بڑی پرجوش تقریریں کرتے تھے اور اخباروں میں ان کی تقریروں کے اقتباس شائع ہوتے تھے چنانچہ مولانا غزنوی کو گرفتار کر کے تین سال کے لئے میانوالی جیل میں نظر بند کر دیا گیا اور میں بھی دو سال کے لئے میانوالی جیل پہنچ گیا۔ جیل میں میری پہلی ملاقت مولانا سید داؤد غزنوی سے ہوئی اور دو سال تک رفاقت رہی۔
Flag Counter