Maktaba Wahhabi

168 - 402
پیکرِ علم و فضل ۔۔۔قاری عبدالخالق رحمانی (پیدایش: 25 نومبر 1925ء ،وفات: 3 دسمبر 2006ء) وقت کا دھارا کس تیز رفتاری سے بہتا ہے۔3 دسمبر 2006ء کو جماعت کے مقتدر و نامور اور شعلہ نوا مقدر قاری عبدالخالق رحمانی اس جہانِ فانی سے آخرت کے راہی ہوئے تھے۔9 سال کے قریب مدت گزر چکی ہے،لیکن ان کی ملاقاتوں کی حسین و خوب صورت یادیں اب بھی دل و دماغ کی دنیا میں موجزن ہیں۔ قاری صاحب جس عظیم ہستی کے صاحب زادے تھے،وہ تھے علمی دنیا اور مسندِ درس و تدریس کی زینت نمونۂ اسلاف حضرت مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی رحمۃ اللہ علیہ۔ان سطور کے راقم کو دو تین دفعہ جامع مسجد قدس چوک دالگراں لاہور کے دار العلوم میں اُن سے ملاقات اور مجلس میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے،جسے نصف صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے،مگر ان کے علم و عمل اور پاکیزہ گفتار کے اثرات آج بھی محسوس کر رہا ہوں۔ حضرت کھنڈیلوی بڑے وجیہ و شکیل،طویل قد و قامت مگر انتہائی متواضع شخصیت کے مالک تھے،وہ حضرت حافظ محمد عبداﷲ روپڑی کے شاگردِ رشید تھے۔ہمارے ممدوح حضرت قاری عبدالخالق رحمانی علیہ الرحمہ بھی اپنے والد کا عکسِ حسین،حسن و جمال بھری خوب صورت شکل و صورت،توانا جسم اور علم و فضل کے پیکر عالمِ دین تھے۔کرتا پاجامہ اور اچکن و قراقلی ٹوپی میں ملبوس ان کی شخصیت دیکھنے والوں کو اپنا
Flag Counter