Maktaba Wahhabi

268 - 402
چند بھولی بسری یادیں ہمارے فضیلت مآب اسلاف اور علمائے عظام جہاں دعوت و تبلیغِ دین اور تصنیف و تالیف کے میدانوں کے شاہسوار تھے،وہاں ان کی علم و عرفان کی محفلوں میں خوش طبعی اور زندہ دلی بھی خوب ہوا کرتی تھی۔وہ باتوں باتوں ہی میں بڑے بڑے عقدوں اور مسائل و نکات کی گرہیں کھول کر رکھ دیتے۔قارئین کی لطف اندوزی کے لیے ذیل میں ان کے چند ایک خوش کن واقعات تحریر میں لائے جا رہے ہیں۔ تحریکِ آزادی کے آخری مجاہد اور مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے بانی حضرت مولانا محمد داود غزنوی کی وفات سے ایک سال قبل 4،3،2 اپریل 1962ء کو لاہور موچی دروازے میں عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی،جس کی صدارت بارعب شخصیت مولوی عبدالعزیز (سابق چیف جسٹس ریاست فرید کوٹ،مشرقی پنجاب) نے فرمائی تھی۔ آخری روز اتوار کو ظہر سے قبل کا اجلاس تاریخی اہمیت کا حامل تھا،جس کی صدارت مرکزی وزیرِ قانون شیخ خورشید احمد نے کی تھی۔مقررین میں میاں محمود علی قصور،علامہ علاء الدین صدیقی (وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی)،مولانا محمد حنیف ندوی اور خود مولانا غزنوی تھے۔اجلاس کے آغاز میں مولانا غزنوی کے حکم پر ان سطور کے راقم نے معروف شاعر احسان دانش کی اردو نظم ترنم کے ساتھ پڑھی۔اس اجلاس کے آخری مقرر مولانا محمد صدیق فیصل آبادی تھے،ان کا موضوع ’’خلافتِ راشدہ‘‘ تھا۔
Flag Counter