Maktaba Wahhabi

112 - 924
(۹)۔ دبستانِ حدیث۔ (۱۰)۔گلستانِ حدیث۔(۱۱)۔چمنستانِ حدیث۔(۱۲)۔بوستانِ حدیث۔(۱۳)۔ کاروانِ سلف۔ (۱۴)۔محفلِ دانشمنداں ۔(۱۵)۔ارمغانِ حنیف رحمہ اللہ ۔(۱۶)۔تذکرہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ ۔ (۱۷)۔تذکرہ میاں عبدالعزیز مالواڈہ رحمہ اللہ ۔(۱۸)۔تذکرہ مولانا احمد دین گکھڑوی رحمہ اللہ ۔(۱۹)۔تذکرہ مولانا غلام رسول قلعوی رحمہ اللہ ۔(۲۰)۔تذکرہ صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ(ماموں کانجن)۔ (۲۱)۔تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ ۔ (۲۲)۔میاں فضل حق اور ان کی خدمات۔(۲۳)۔قصوری خاندان۔(۲۴)۔روپڑی علمائے حدیث۔ خطابات: بھٹی صاحب کو ’’لجنۃ القارۃ الہندیہ‘‘ کویت کی طرف سے مولانا عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ کی سعی و کوشش سے ’’مورخِ اہلِ حدیث‘‘ کا خطاب دیا گیا اور پاکستان میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے ہم عصر بزرگ مولانا عزیز زبیدی رحمہ اللہ نے ’’ذہبیِ وقت‘‘ کا خطاب دیا۔ صحیح معنوں میں مرحوم بھٹی صاحب ان دونوں خطابات کے مستحق تھے۔ فضائل و شمائل: مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ اپنی وضع کے پابند، اخلاق و شرافت کا مجسمہ اور علم و حلم کا پیکر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ اتنے بڑے مصنف ہونے کے باوجود مزاج میں رعونت، اکڑفوں ، تعلّی، خودستائی اور شیخی نہیں تھی۔ ان میں اخلاص، للہیت، ذہانت، فطانت، قابلیت، لیاقت، امانت، دیانت، شفقت و رحمت، محبت و الفت، تقویٰ و طہارت، مساوات و اخوت، ادب و عقیدت، عزت و حمیت، عدالت و ثقاہت، حوصلہ و ہمت، شرافت و نجابت، رعب و حشمت، احترام و عظمت، اخلاق و مروت، وضع داری، روا داری اور خوش مذاقی ان کے کردار کے خاص اوصاف اور نمایاں جوہر تھے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ بڑے حساس، ذہین، فطین اور شگفتہ مزاج تھے۔طبیعت میں خشک مزاجی اور عند الملاقات بے رخی برتنا، بھٹی صاحب رحمہ اللہ میں بالکل نہ تھا۔ نکتہ سنج، بذلہ سنج اور مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے۔ غیروں اور عزیزوں کے ساتھ ان کی گفتگو اور عام برتاؤ میں شگفتگی اور خوش طبعی نمایاں رہتی تھی۔ اس وصف نے مرحوم کی شخصیت کو باغ و بہار بنا دیا تھا۔ آپ رحمہ اللہ کی پوری زندگی قناعت، وفا، ایثار اور قربانی کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ راقم کے تعلقات: راقم سے تعلقات ۱۹۵۵ء میں استوار ہوئے، جب وہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے مدیر تھے۔ ان سے ہر دوسرے تیسرے روز ملاقات ہو جاتی تھی۔ بڑے اخلاق سے ملتے تھے۔ کبھی کبھی ان سے ’’الاعتصام‘‘ کے دفتر میں ملاقات ہوتی، بڑی خندہ پیشانی سے ملتے۔ چائے اور شربت سے مہمان نوازی کرتے۔ جس زمانے میں ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے منسلک تھے، اس دور میں روزانہ، کبھی دوسرے دن ضرور، ملاقات ہو جاتی۔ ریٹائر منٹ کے بعد میں اپنے وطن سوہدرہ(ضلع گوجرانوالہ)آگیا تو پھر ملاقات بذریعہ خط کتابت ہوتی۔ راقم خط لکھتا تو تیسرے چوتھے دن اس کا
Flag Counter