Maktaba Wahhabi

116 - 924
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو ماننا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے اور شرطِ ایمان۔ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں کسی امام کے قول کو ترجیح نہیں دیتے۔ (۴)۔ حافظ عبداللہ بہت بڑے مبلغ تھے، انھوں نے اپنے اسلوبِ خاص سے دینِ اسلام کی تبلیغ کی۔ (۵)۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ کا مطالعہ وسیع تھا، حاضر جواب بھی تھے، کلمہ حق بلند کرنے کی جراَت بھی رکھتے تھے۔ جو بات ان کے نزدیک کتاب و سنت کے مطابق ہوتی، بلا تامل بیان کر دیتے تھے۔ (۶)۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ برملا سچ کہنے کے عادی تھے، وہ جعلی مردِ حق نہ تھے، صحیح معنوں میں مردِ حق تھے۔ (۷)۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ ذاتی طور پر منکسر تھے، لیکن تبلیغِ دین میں سخت تھے۔ عام معاملات میں نہایت متواضع تھے، لیکن شریعت کی اشاعت میں انتہائی تیز تھے۔ دنیوی باتوں میں کم گو تھے، لیکن کلمہ حق کہنے میں نہایت بلند آہنگ تھے۔(کاروانِ سلف، ص: ۳۲۳، ۳۲۳، ۳۲۴، ۳۲۷، ۳۴۶، ۳۴۹، ۳۶۷) 7۔مولانا سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ(م، ۱۹۹۵ء): (۱)۔ حضرت شاہ محب اللہ راشدی رحمہ اللہ اﷲ بہت بڑے مبلغِ اسلام تھے۔ تبلیغِ اسلام کے لیے انھوں نے صوبہ سندھ اور پاکستان کے دوسرے صوبوں میں تگ و تاز کی۔ (۲)۔ سید محب اللہ شاہ رحمہ اللہ بڑے باخبر بزرگ تھے، وہ لوگوں کی نفسیات سے آگاہ تھے۔ (۳)۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ وسیع العلم اور وسیع المطالعہ تھے، اسی طرح وسیع الظرف، وسیع السفراور وسیع اللقاء بھی تھے۔(کاروانِ سلف، ص: ۳۹۴، ۳۹۶، ۴۰۱) 8۔مولانا سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ ، المعروف پیر آف جھنڈا(م، ۱۹۹۶ء): (۱)۔ حضرت پیر آف جھنڈا زوردار اور پرجوش مقرر تھے۔ جو بات صحیح سمجھتے تھے، اسے لوگوں تک پہنچانا ان کے نزدیک ضروری تھا۔ صاف لہجے اور اعتماد کے ساتھ بولتے تھے۔ دلائل کا انبار ان کاہم رکاب تھا اور کتاب و سنت ان کی پشت پناہ۔(کاروانِ سلف، ص: ۴۴۶) (۲)۔ شاہ صاحب رحمہ اللہ اللہ کے فضل سے بہت اچھے مصنف بھی تھے۔ وہ بسیار نویس اور تیز نویس مصنف تھے، ان کی عربی، اردو، اور سندھی میں تصانیف کی تعداد ۱۰۸ ہے۔(ص: ۴۸۴) 9۔حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ(م، ۶؍ دسمبر ۱۹۹۹ء): (۱)۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ وہ صرف مناظرومقرر یا واعظ و مبلغ نہ تھے، یعنی گفتار کے غازی نہ تھے بلکہ حرکت و عمل میں بھی وہ اپنا ایک مقام رکھتے تھے۔(قافلہ حدیث، ص: ۵۰۵)
Flag Counter