Maktaba Wahhabi

122 - 924
ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے! تحریر: جناب پروفیسر حکیم راحت نسیم سوہدروی۔ لاہور کاروانِ زندگی کا نظام کچھ ایسا ہے جسے آنا ہے اسے بہر صورت جانا ہے۔ روزانہ ہزاروں نونہال آغوشِ مادر میں آنکھیں کھول رہے ہوتے ہیں اور سیکڑوں موت کی وادی میں اترتے ہیں ۔ مگر اس نظام سے زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ جانے والوں کے باوجود بھی کاروانِ زندگی یوں ہی رواں دواں رہتا ہے۔ بعض لوگ جب اس کاروانِ زندگی سے الگ ہوتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ چمن سونا سونا ہے اور اداسی ہر طرف ڈیرے ڈال دیتی ہے۔ ایک ویرانی سی محسوس ہوتی ہے، ایسی ہی عظیم شخصیات میں سے مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ہیں ۔ گذشتہ دسمبر ۲۰۱۵ء کی ۲۲ تاریخ کو چند روزہ علالت کے بعد وہ راہی ملکِ بقا ہوئے۔ انھیں اپنی خدمات، علم و ادب، تصنیف و تالیف اور تاریخ و سوانح کے باعث ہر طبقۂ فکر میں پذیرائی حاصل تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ گذشتہ صدی کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ انھوں نے تحریکِ آزادی سے لے کر دورِ حاضر تک ہر تحریک کو قریب سے دیکھا۔ وہ ایک صاحبِ عزیمت انسان تھے۔ زندگی اس شان سے گزاری کہ جو حق پرستوں کی شان ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اس قافلے کے فرد تھے جس کے سرخیل مولانا ابو الکلام آزاد، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا محمد اسماعیل سلفی اور مولانا محمد حنیف ندوی رحمہم اللہ تھے۔ انھوں نے جن اکابر علما کو دیکھا، ان کے بارے میں خوب لکھا اور وہی لکھا، جو سچ تھا۔ ان کی تحریریں بڑی دلچسپی کی حامل ہوتیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ مورخ، عالمِ دین، مترجم، مصنف اور ادیب و خطیب تھے۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ ان کی یادداشت بلا کی تھی۔ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کی صبح آٹھ بجے جبکہ میں سفر پر روانگی کی تیاری کر رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف مولانا حکیم محمد یحییٰ عزیز ڈاہروی تھے۔ انھوں نے بتایا کہ نمازِ فجر کے بعد مولانا محمد اسحاق بھٹی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں ۔ إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ ساتھ ہی انھوں نے بتایا کہ ان کی نمازِ جنازہ دو بجے دوپہر ناصر باغ میں ادا کی جائے گی۔ اس خبر کے ساتھ ہی مولانا محمد اسحاق بھٹی سے وابستہ یادوں کی وسیع مالا نظروں کے سامنے آگئی۔ ان سے بے شمار ملاقاتیں رہیں ۔ جو میرے افکار و محسوسات کو جگمگائے رکھتی ہیں ۔ ان سے پہلی ملاقات عجائب گھر لاہور کے ڈپٹی ڈائریکٹر انجم رحمانی کے دفتر میں ہوئی۔ میں ان دنوں ہمدرد انار کلی میں خدمات انجام دیتا تھا۔ میرا معمول تھا کہ
Flag Counter