Maktaba Wahhabi

141 - 924
’’میری ہر دلعزیز شخصیت‘‘۔۔۔ مولانامحمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی(شعبہ علومِ اسلامیہ، جامعہ پنجاب لاہور) اللہ تعالیٰ ہر دور میں بعض شخصیات ایسی پیدا فرماتا ہے جو اللہ داد صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے کسی کارنامے کے سبب قبولِ عام اور شہرتِ دوام حاصل کر جاتی ہیں اور بعض لوگوں کو شخصی اوصاف اور طبعی خوبیاں ایسی عطا ہوتی ہیں کہ ان کی شخصیت ہر ایک کے دل میں گھر کر جاتی ہے اور وہ ہر دل عزیز بن جاتے ہیں ۔ ایسی ہی ایک شخصیت محترم و مکرم جناب مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تھے، جو ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو داغِ مفارقت دے گئے اور ہم سب کو غم زدہ کر گئے۔ إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ ویسے تو محترم اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا ہمارے خاندان سے تعلق تین نسلوں سے تھا، لیکن مجھے براہِ راست ان کی شفقت گذشتہ پچیس تیس سال سے حاصل تھی۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ یہ خاندانی رفاقت ان کی زندگی کے آخری لمحات تک یوں جاری رہی کہ ان کی وفات سے ایک ہفتہ قبل ان کے گھر پر تین چار گھنٹے کی طویل ملاقات کے شرف کے علاوہ ان کی وفات پر نمازِ جنازہ کی امامت کی سعادت بھی مجھے عطا ہوئی، جس کے لیے اللہ تعالیٰ کے شکر کے علاوہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے افرادِ خاندان کا بھی شکر گزار ہوں ۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ میرے ذاتی تعلق کی نوعیت و تفصیل ایک الگ تحریر میں تذکرہ کرنے کا ارادہ ہے۔ إن شاء اللّٰہ۔ محترم اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا ہمارے خاندان اور خصوصاً والد صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ تعلق کئی پہلوؤں سے تھا۔ عقیدت، دوستی، تعلّم(شاگردی)اور دیگر کئی معاشرتی، دینی اور جماعتی جہات نے اس تعلق کو ایک بیش قیمت اور لازوال رشتے کی صورت دے دی تھی۔ مرکز الاسلام(نزد لکھو کے، ضلع فیروز پور )میں اپنے قیام کے دوران میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ ، والد صاحب رحمہ اللہ کے ہم سبق اور ہم جماعت بھی رہے، شاگرد بھی رہے، دوستی کا تعلق بھی بنا اور روحانی عقیدت کا رشتہ بھی قائم ہوا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی زیادہ دوستی ہم عمری کی بنا پر چچا جان محترم مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ سے تھی۔ یہ ساری تفصیلات کافی حد تک جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے مختلف کتب میں بیان کر دی ہیں ۔ اکثر و بیشتر بھٹی صاحب رحمہ اللہ اس تاریخی خاندانی تعلق کو دینی و روحانی عقیدت ہی سے تعبیر کرتے تھے۔ اسی خاندانی وابستگی کی بنا پر وہ ہم سب بھائیوں کے ساتھ، جو سب ان کے بچوں کے مرتبے پر ہیں ، ہمیشہ انتہائی محبت اور شفقت کا رویہ رکھتے تھے، لیکن لفظی اعتبار سے اسے ’’پیری مریدی‘‘ کا تعلق ہی گردانتے تھے۔ اکثر مجھے فرماتے: ’’ہم دونوں پیر ہیں ، میں عمر کے اعتبار سے پیر(بوڑھا)ہوں اور تم خاندانی اعتبار سے پیر(روحانی پیشوا)ہو۔‘‘ ایسا وہ میری کسی خوبی
Flag Counter