Maktaba Wahhabi

143 - 924
صداقت شعار و پُر وقار تحریر: جناب پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفور راشد۔ لاہور تاریخِ اہلِ حدیث میں ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کا دن بھی ایک یادگار اور تاریخی حوالہ بن گیا ہے، جس کا سبب یہ ہے کہ اس روز طلوعِ فجر سے قبل ہی تاریخ کا دامن ایک عظیم صاحبِ قلم سے محروم ہو گیا، جسے علمی دنیا ’’مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ اس درد ناک حقیقت کا اعتراف بھی کرنا ہو گا کہ اب مولانا بھٹی موجود نہیں رہے اور وہ مرحوم ہو گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے خاص جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین!۔۔ إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ اللھم اغفرلہ و ارحمہ وعافہ واعف عنہ۔ اب تو یہی کیا جا سکتا ہے: ؎ کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں ، کہاں تلاش کریں جس آدمی میں ہو ایثار آدمی کے لیے یہاں تو پہلے ہی قحط الرجال تھا یارو اصول پوچھئے اب کس سے زندگی کے لیے مولانا بھٹی مرحوم کئی حوالوں سے معتبر ہیں ۔ انھیں کویت کی اہلِ حدیث جماعت نے ’’مورخِ اہلِ حدیث‘‘ کے اعزاز سے نوازا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہاں کے احباب نے مولانا عارف جاوید محمدی کی قیادت میں مورخ اہلِ حدیث کے ساتھ کچھ صُبحیں اور شامیں بسر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ بجا طور پر اس لقب اور اعزاز کے حق دار تھے کہ انھوں نے ہزاروں صفحات پر اہلِ حدیث اکابر و عمائد کی خاکہ نگاری کی۔ یہ ایسا امتیاز ہے جو کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ علمی حلقے مولانا بھٹی رحمہ اللہ کو ’’ذہبیِ دوراں ‘‘ بھی کہتے ہیں ، اس لیے کہ ان کا حافظہ کمال کا تھا۔ کبر سنی اور ضعیف العمری کے باوجود انھیں بچپن سے ضعیفی تک پیش آنے والے سب واقعات یاد تھے۔ جب وہ بیان کرتے کہ میں تین سال کی عمر میں سیڑھیوں سے گرا تھا تو ساتھ بتاتے کہ میرے ساتھ ڈیڑھ سال کی میری چھوٹی بہن بھی تھی۔ مجھے اور بہن کو کس قدر چوٹ آئی، ہم کیسے اور کتنا روئے، گھر والوں میں سے کون کون بے چین ہوئے۔ وہ بیان کرتے تو بتاتے کہ پانچ سال کی عمر میں اپنے دادا جان کے ساتھ فلاں گاؤں میں گیا اور وہاں کس کس سے ملاقات ہوئی۔ ملنے والے کا حلیہ کیسا تھا اور وہ کس مزاج کا مالک تھا اور اس نے کس انداز سے مہمان نوازی کی۔ ان کا کمال
Flag Counter