Maktaba Wahhabi

149 - 924
عظمتِ رفتہ کا ایک نقشِ ارجمند۔۔۔ محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تحریر: جناب ڈاکٹر زاہد منیر عامر صاحب۔ لاہور وارث شاہ نے ہیر لکھی تو اچھے خاصے لوگ بھی اس کی رمزیت کو نہ پا سکے اور قصے کے ظاہری روپ پر معترض ہوئے، یہاں تک کہ روایت کے مطابق وارث شاہ کے استاد بھی شاگرد پر برہم ہوگئے۔ سعادت مند شاگرد نے استاد کی دی ہوئی سزا کو تو قبول کر لیا، لیکن اپنی صفائی میں یہ ضرور کہا: یہ روح قلبوت دا ذکر سارا نال عقل دے میں ملایا اے وارث شاہ میاں لوکاں کملیاں نوں قصہ جوڑ کے خوب سنایا اے اس رمزیت کو پنجاب کے ایک مدرسے کا طالبِ علم پا لیتا ہے اور اپنے استاد سے کہتا ہے کہ مسجدوں میں سبعہ معلقات، متنبی اور مقاماتِ حریری وغیرہ تو بڑے التزام سے پڑھائی جاتی ہیں ، مگر ہیر وارث شاہ یا اس قسم کی دوسری کتابیں کوئی شخص مسجد میں لے آئے تو برا مانا جاتا ہے، حالانکہ وہ بھی ادب کی کتابیں ہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ ایک عربی ادب ہے اور دوسرا پنجابی ادب…… پھر ہیر وارث شاہ میں بعض باتیں اس قدر کھل کر بیان نہیں کی گئیں ، جس طرح عربی ادب کی کئی کتابوں میں بیان کی گئی ہیں …… استاد اسے پنجابی ادب کی کتابوں سے تمسک کی اجازت دے دیتا ہے، یوں طالب علم کی شخصیت میں مذہب کے ساتھ ادب کی لہر آمیز ہو کر اس کی شخصیت کو باغ و بہار بنا دیتی ہے……… شاگرد کا نام محمد اسحاق بھٹی ہے، جو بڑا ہو کر خود ایسے فن پارے تخلیق کرتا ہے جنھیں یونیورسٹیوں میں موضوعِ تحقیق بنایا جاتا ہے۔ تاریخ، شخصیت نگاری، جریدہ نگاری، فقہ، ترجمے اور کتابیات کی دنیا میں باقی رہنے والے کام انجام دیتا ہے……درمیانی قامت، مسکراتا چہرہ، ذہانت بھری آنکھیں ، بے تکلف اندازِ گفتگو، بات چیت پر لطیفہ اور اس کے تعاقب میں ابلتے ہوئے قہقہے۔ یہ تھے ہمارے بھٹی صاحب رحمہ اللہ جنھیں لوگ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کہا کرتے تھے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ اُردو کے بے مثل خاکہ نگار تھے۔ راقم نے ایک بار مشفق خواجہ مرحوم سے ان کے لکھے ہوئے رئیس احمد جعفری رحمہ اللہ کے خاکے کا ذکر کیا تو خواجہ صاحب رحمہ اللہ نے اسے پڑھنے کا اشتیاق ظاہر کیا، انھیں اس خاکے کی نقل بھجوائی گئی، انھوں نے مصنف کے مزید خاکے پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، مزید خاکے بھی بھجوا دیے گئے۔
Flag Counter