Maktaba Wahhabi

154 - 924
ذہبیِ دوراں مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تحریر: جناب پروفیسر مولا بخش محمدیؔ۔(مٹھی تھرپارکر، سندھ) ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء نمازِ فجر ادا کرنے سے فراغت کے بعد کالج جانے کی تیاری میں مصروف تھا کہ میرے رفیق شفیق مولانا محمد رمضان یوسف سلفی حفظہ اللہ کی طرف سے موبائل کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھایا تو سلفی صاحب نے لرزتی ہوئی آواز میں بتایا کہ ’’مولانا محمد اسحاق بھٹی اب اس جہان فانی میں نہیں رہے۔‘‘ بے ساختہ آنکھوں سے آنسو اور زبان پر ’’إنا ﷲ و إنا إلیہ راجعون‘‘ جاری ہوگیا۔ ۱۵؍ مارچ ۱۹۲۵ء کو موسمِ بہار میں کھلنے والا یہ مہکتا ہوا سدا بہار پھول بالآخر زندگی کی ۹۱ بہاریں دیکھ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کی سرد رات میں خزاں نے ہم سے چھین لیا۔ بلاشبہہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ایک تاریخ بلکہ تاریخ ساز شخصیت تھے، جو تاریخ کے اوراقِ پارینہ سے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے اور ایک مدت تک ہمیں تاریخ سکھاتے رہے۔ اور وہ ایک تاریخ مرتب کر کے پھر ہمیشہ کے لیے تاریخ کی کتابوں میں واپس چلے گئے۔ اک موج تھی کہ دوش صبا پر گزر گئی بفضلِ ربانی مولانا بھٹی رحمہ اللہ سے میرے مدت مدید سے قلمی برادرانہ تعلقات قائم تھے۔ کبھی فون پر بات چیت ہو جاتی تھی، کبھی خط کتابت کے ذریعے راز و نیاز کی باتیں ہوتیں ۔ علمی، ادبی اور تحریری میدان میں ان کی ہمیشہ سرپرستی رہی۔ ان کے مفید مشورے اور ہمت افزائی میرے لیے ہمیشہ باعثِ صد اعزاز رہی۔ گاہے بہ گاہے موبائل پر بعض دوستوں کے ذریعے بھی ان کی عافیت کی خبر ملتی رہتی تھی۔ ہم ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے ان کو دعائیں دیتے تھے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا بڑے خوش نصیب ہیں محترم مولانا محمد رمضان یوسف سلفی حفظہ اللہ جنھوں نے رفاقت کا حق نبھاتے ہوئے مولانا بھٹی رحمہ اللہ کی زندگی ہی میں نہ صرف انھوں نے ان کی ساری تصانیف کا تفصیلی تعارف تحریر فرمایا، بلکہ خود مولانا بھٹی رحمہ اللہ کی حیات و خدماتِ جلیلہ پر علما و ممتاز ادبا کے مضامین و مقالات جمع کرکے ایک جامع، ڈھائی سو کے قریب صفحات پر مشتمل خوبصورت کتاب مرتب کرکے فرضِ کفایہ ادا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعیِ جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین۔ افسوس کہ ہمیں ان کی محققانہ کتابیں پڑھ کر بھی دادِ تحسین دینے کا فن بھی کم ہی آتا ہے۔ ورنہ ماضی کے مشاہیر علمائے عظام اور فقہائے کرام کے پورے کوائف، تحقیق شدہ حالاتِ زندگی، ان کے ورثا، پس ماندگان اور تلامذہ سے
Flag Counter