Maktaba Wahhabi

161 - 924
مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ، ایک عہد____ایک داستاں تحریر: جناب پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد چنیوٹی۔ فیصل آباد ۲۰۱۵ء کا اختتامی دورانیہ جماعت اہلِ حدیث کے لیے خصوصاً اس اعتبار سے نہایت پر آشوب اور درد و الم سے بھرا ہوا ہے کہ ہماری مایہ ناز علمی شخصیتیں یکے بعد دیگرے ہمیں داغِ مفارقت دے گئیں ۔ شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالحمید ازہر، مولانا عبداللہ مدنی جھنڈا نگری اور اب مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہم اللہ کی جدائی کا صدمہ بھی ہمیں سہنا پڑا۔ مولانا ہنستے مسکراتے اور چلتے پھرتے لمحوں میں ہم سے جدا ہوگئے۔ خود داری، وضع داری، درویش منشی، استغنا جیسی صفات کا حامل دوسروں کا محتاج ہوئے بغیر عزت و وقار کے ساتھ داعیِ اجل کو لبیک کہہ گیا۔ اللھم اغفرلہ و ارحمہ۔ بھٹی صاحب کی وفات علما اور طلبہ کے طبقے میں خاص حیثیت سے اثر انگیز ہے۔ بھٹی صاحب کی پیدایش ۱۵؍ مارچ ۱۹۲۵ء میں ہوئی، ان کی عمر قریباً ۹۱ سال تھی۔ مرحوم نے گو عمر طبعی پائی، لیکن اس خیال سے کہ وہ اس عہد میں اگلی صحبتوں کے تنہا یادگار تھے۔ ہم ان کے لیے درازیِ عمر کے متوقع تھے۔ مرحوم قوتِ حافظہ، وسعتِ نظر، معتدل فکر، علمی وسعت، تاریخ پر گہری نظر اور حالات و ظروف کی معرفت میں یگانہ روزگار تھے۔ درس و تدریس کے مشغلے سے باقاعدہ منسلک نہ تھے، جس بنا پر ان کے تلامذہ کی طویل فہرست مرتب ہوتی، مگر ان کے خوشہ چینوں ، عقیدت مندوں ، قدر دانوں اور چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ پاکستان اور بیرون ممالک میں ان کے محبین موجود ہیں ۔ قحط الرجال اور نفسی نفسی کے دور میں ان کی وفات بیک وقت علمی، ادبی اور دینی حلقوں کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ ملک و قوم اور جماعتوں کو ایسے بے لوث اور محنتی افراد کی اشد ضرورت ہوتی ہے، جو لوگوں پر بوجھ بننے کے بجائے دوسروں کا بوجھ اٹھائیں ، قومی اور ملی درد کو ذاتی اغراض پر ترجیح دیں ۔ تحقیق کی شمع روشن کر کے متلاشیانِ حق کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیں ۔ اپنا گھر جلا کر علم کی بستیاں آباد کریں ۔ اپنی جائیدادیں تج کر کے شمع علم کو فروزاں کریں ، قوموں سے لینے کے بجائے انھیں کچھ دینے کا ذوق ہو۔ موجودہ مادی اور افراتفری کے عالم میں ایسے افراد کا وجود غنیمت تھا۔ ایسے اشخاص جنھیں اپنے فن سے پیار ہو، ذوق سے محبت ہو، رجحانات سے جنون ہو، دین سے وابستگی اور ملت سے وارفتگی ہو، بہت کم ہوتے ہیں ۔ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کہاں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی، دور جوانی کیسا گزرا، تحریک آزادی میں بھرپور شرکت اور ان نامور رفقائے کرام اور محترم اساتذہ کے اسمائے گرامی، پھر ان کی صحافتی، تالیفی اور جماعتی
Flag Counter