Maktaba Wahhabi

162 - 924
خدمات کی داستان، ان اہم موضوعات پر ملک کے نامور اہلِ قلم، عقیدت مند اور حلقہ ارادت سے وابستہ عشاق ضرور خامہ فرسائی کریں گے۔ راقم الحروف کو تو ان کے متنوع اوصاف اور بے پناہ خوبیوں کا ذکر کرنا ہے۔ دور حاضر میں کمیاب اور نادر لوگ ہیں جن میں یہ خوبیاں ہوں ، مگر بھٹی صاحب میں بدرجہ اتم موجود تھیں ، انہی اوصاف کی بنا پر وہ محبوب شخصیت تھے، علمی اور صحافتی دنیا میں ان کا نام عزت و تکریم کا نشان تھا۔ ایک خاموش طبع، درویش صفت، سادہ مزاج انسان کو اللہ نے کس طرح مقبولیتِ عامہ عطا فرمائی کہ اپنے اور غیر سب ان کا احترام کرتے۔ مہمان نوازی، خندہ پیشانی، عجز و انکساری، تواضع، چھوٹوں پر شفقت، بزرگوں کا احترام اور عقیدت، دوست احباب کے لیے محبت و اپنائیت، خوش مزاجی، ظرافت و خوش طبعی، فقر و درویشی ان اوصاف کا گلدستہ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تھے۔ صبر و استقامت: ان کی زندگی کا خاص وصف صبر و استقامت تھا۔ مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی ان کے چہرے پر غم کے اثرات نمودار نہ ہوتے۔ بقول میرزا ادیب: ’’ان کی باطنی کیفیت کیسی بھی ہو، ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹوں کے پھول کھلے رہتے تھے۔‘‘ ایک مرتبہ راقم الحروف کو موصوف نے ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کے دفتر میں بیٹھے ہوئے اپنی زندگی کا ناقابلِ فراموش واقعہ سنایا، جب وہ ایک موقر ہفت روزہ جریدے کی ادارت سے الگ ہوئے۔ وہ ماضی کی یادوں میں کھو گئے، مگر زبان پر گلہ شکوہ نہیں تھا۔ ایسے مواقع ہی انسان کی پہچان اورشخصی عظمت کا مظہر ہوتے ہیں ، جب انسان ان امتحانوں سے سرخرو ہوتا ہے تو کامیابیاں اس کے قدم چومتی ہیں ۔ قوتِ حافظہ: مولانا محمد اسحاق بھٹی کے اوصافِ حمیدہ میں سے قوتِ حافظہ کی وہبی نعمت بھی تھی، جس سے ان کی شخصیت کو نکھار اور ان کی ذات کو شہرت و عظمت ملی، مولف و مورخ بنے۔ برصغیر کے مشاہیر علما اور نامور لیڈروں کی سوانح نگاری ان کا پسندیدہ مشغلہ اور ان کے کارناموں کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنا ان کا محبوب عمل تھا۔ اس فن میں ان کی متعدد تالیفات منظرِ عام پر آ چکی ہیں ، جن کی مقبولیت کی بنا پر انھیں علما کی طرف سے ’’ذہبیِ دوراں ‘‘ کا لقب دیا گیا۔ قوتِ حافظہ عطا اور فطرت بھی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جن سے کام لینا مقصود ہوتا ہے، انھیں قوتِ حافظہ سے نواز دیتے ہیں ، مگر وابستگی، تعلقِ خاطر اور عقیدت کا بھی اس میں دخل ہے۔ بھٹی صاحب کو اسلاف سے محبت تھی، ان کے کارناموں کو اُجاگر کرنا ان کا پسندیدہ موضوع اور شخصیتوں کاتذکرہ ان کی غذا تھی۔ ان کی یادداشت اس قدر مضبوط تھی کہ راقم کے ساتھ تعارف و شناسائی کو تیس سال گزر گئے، میں نے ایک روز اچانک پوچھا: ’’بھٹی صاحب! آپ کو یاد ہے کہ میری اور آپ کی پہلی ملاقات کہاں ہوئی؟‘‘ انھوں نے برجستہ جواب دیا: ’’مدرسہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن میں ، حضرت صوفی عبداللہ رحمہ اللہ کی قبر پر دعا کرتے ہوئے، جب کہ آپ اور میں دونوں ہی تھے۔‘‘
Flag Counter