Maktaba Wahhabi

173 - 924
میں عیب اور نقص نہیں نکالتے تھے۔ دستر خوان پر موجود کھانا نہ کھانا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دستِ مبارک آگے نہ بڑھاتے، مگر عیب جوئی بھی نہ فرماتے۔ ہمارے مولانا بھٹی مرحوم بھی گھر میں یا احباب کے ہاں جو ملتا، ضرورت کے مطابق کھا لیتے۔ بسیار خوری ویسے بھی اہلِ دانش کے ہاں ناپسندیدہ تصور کی جاتی ہے، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تو یہ ہے کہ کھانا بھوک رکھ کر کھانا چاہیے اور مولانا کا قول ہے: ’’خور دن برائے زیستن نہ کہ زیستن برائے خور دن است۔‘‘ یعنی کھانا جینے کے لیے ہے، جینا کھانے کے لیے نہیں ہے۔ 2۔ روحانی خوراک: ہر مسلمان کی روحانی خوراک اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی بارگاہ میں سجدہ و رکوع ہے، اس سے دلوں کو قرار ملتا ہے، روح کو تازگی ملتی ہے اور خیالات کو جلا ملتی ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ أَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴾ [الرعد: ۲۸] ’’خبردار! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘ انبیائے کرام اور سلف صالحین بھی اسی عمل پر کاربند رہے۔ ہمارے ممدوح مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ بھی اللہ کے ذکر اور اس کی یاد سے اپنے دل کو قرار اور اپنی روح کو تازگی بخشتے تھے۔ پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کے ساتھ شب بیداری اور صبح خیزی ان کا معمول تھااور یہ معمول ان کا بچپن سے تھا، کیوں کہ ان کی تربیت ان کے دادا جان مرحوم نے کی تھی۔ وہ ابھی نو عمر ہی تھے کہ ان کے دادا جان نمازِ فجر کے لیے مسجد میں اپنے ساتھ لے جاتے، بلکہ کبھی کبھی ان سے فجر کی اذان بھی کہلواتے اور نمازِ فجر باجماعت ادا کرتے، اس سارے کام کے لیے فجر سے پہلے بیدار ہونا پڑتا ہے، بلکہ دادا جان نے ان کی تربیت کے لیے بچپن ہی میں انھیں بڑے پاک طینت علما سے ملوایا، ان سے دعا کروائی اور ان کے حلقہ بیعت و ارادت میں بھی شامل کروایا۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ نے خود لکھا ہے کہ ایک دفعہ بڑے ہی صاحبِ تقویٰ و ورع بزرگ عالمِ دین سید محمد شریف گھڑیالوی رحمہ اللہ ’’انجمن اصلاح المسلمین‘‘ کے جلسے میں شرکت کے لیے کوٹ کپورہ ریاست فرید کوٹ تشریف لائے تو میرے دادا جان مجھے ان کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا کہ میرے اس بچے کو اپنی بیعت میں شامل کر لیں اور دعا بھی فرمائیں ، چنانچہ سید صاحب رحمہ اللہ نے مجھے حلقۂ بیعت میں شامل کیا، دعا فرمائی اور چند نصیحتیں بھی کیں ، جبکہ میری عمر اس وقت دس بارہ سال تھی۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں کہ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی وفات کے بعد میرے استادِ گرامی مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے مجھے صاحبِ کمال بزرگ مولانا کمال الدین ڈوگر رحمہ اللہ کے حلقۂ بیعت میں شامل کروا دیا، وہ بھی بڑے صاحبِ زہد و تقویٰ انسان تھے، ان کی خشیت کا ایک واقعہ راقم الحروف نے اپنی کتاب ’’تذکرۃ الابرار‘‘ میں درج کیا ہے۔ والدین اپنی اولاد و احفاد کی تربیت بڑے ہی خوب صورت انداز میں کرتے تھے۔ یہ ہماری تہذیب
Flag Counter