Maktaba Wahhabi

180 - 924
حافظ عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ: مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ کی ذات ستودہ صفات سے برصغیر پاک و ہند کا ہر ذی علم واقف ہے۔ وہ ایک مہر درخشاں تھے، جن کی روشنی سے ایک عالم منور ہوا۔ وہ اگرچہ استادِ پنجاب کے لقب سے مشہور تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے حلقۂ درس کا فیضان بہت وسیع تھا اور اس کی حدیں سر زمین پنجاب سے بہت آگے نکل گئی تھیں ۔ ان کے علم و فضل کے چشمۂ فیض سے ایک دنیا سیراب ہوئی اور بے شمار تشنگانِ علم نے علم کے اس بحرِ زخائر سے اپنی پیاس بجھائی۔ جو شخص ان کے حلقۂ درس میں شامل ہوا، اس نے علم و اخلاق کے تمام ضروری اجزا سے اپنا دامنِ طلب بھر لیا۔ مولانا عبدالمجید سوہدروی رحمہ اللہ: مولانا مرحوم کو زمانہ طالب علمی ہی سے لکھنے کا ذوق و شوق تھا، جو اُن کی زندگی کے آخری دم تک قائم رہا۔ انھوں نے ’’مسلمان‘‘ نام کا ایک اخبار جاری کیا، جو کئی سال متواتر شائع ہوتا رہا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ’’جریدہ اہلِ حدیث‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کیا، جو اپنے حلقے میں بہت مقبول ہوا، وہ تبلیغی و اصلاحی مضامین کا مجموعہ ہوتا تھا۔ مرحوم کی تحریری خدمات کے علاوہ ان کی تقریری خدمات بڑی موثر اورہمہ گیر تھیں ۔ متحدہ ہندوستان کے ہر گوشے میں ان کی تقریریں ہوئیں اور ہر جلسے میں ان کو خصوصیت سے دعوتِ شرکت دی گئی۔ پنجاب کا ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر قریہ اُن کی تقریروں سے مستفید ہوا۔ تقریر میں بھی ان کا خاص اسلوب تھا، جو موثر اور دلنشیں تھا اور لوگ ان کی تقریر بڑے شوق سے سنتے تھے۔ ان کی زبان میں اثر، آواز میں خلوص اور دل میں درد تھا، جس نے ان کے دائرۂ شہرت کو بہت وسیع کر دیا تھا۔ مولانا مرحوم کا اندازِ تحریر بھی بڑا موثر تھا۔ انھوں نے اسلامی، تاریخی اور طبی موضوع پر ایک سو کے قریب کتابیں لکھی ہیں ۔ ان میں علمائے کرام کے حالات، واقعات اور خدمات پر بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ: آپ علمی اور روحانی اعتبار سے بڑے خاندان کے فرزند تھے۔ عالمِ دین اور علاقے میں صاحبِ اثر و رسوخ۔۔۔ لکھو کے اور مرکز الاسلام کے دو مدرسوں کے مہتمم اور ناظم، پھر پاکستان میں جامعہ محمدیہ کے رئیس۔ آپ عالمِ شباب ہی میں دین و تقویٰ کے اوصاف سے بہرہ ور۔۔۔ لیکن ان خصائص کے با وصف نہایت خوش مزاج اور خوش طبع۔۔۔ لطیف حس کے مالک تھے۔ مولانا صاحب مسلکی اور دینی اعتبار سے نہایت نازک احساسات کے مالک تھے۔ ۱۹۵۳ء کی ’’تحریک تحفظ ختمِ نبوت‘‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک عرصے تک اپنے کئی رفقا سمیت ساہیوال جیل میں قید رہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی عزت دی اور وہ تین مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ضیاء الحق کی مجلسِ شوریٰ کے بھی رکن رہے۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے امیر بھی رہے۔ میں نے ان کی زندگی کا یہ دور دیکھا ہے۔ ہر پہلو سے ان کا جائزہ لیا ہے اور سفر و حضر میں انھیں خوب پرکھا ہے۔
Flag Counter