Maktaba Wahhabi

181 - 924
بابائے تبلیغ مولانا عبداللہ گورداسپوری رحمہ اللہ: مولانا عبداللہ رحمہ اللہ صاف بیان، عمدہ کلام اور منجھے ہوئے مقرر تھے۔ تقریر کا انداز کچھ ایسا کہ اس سے نہ صرف سامعین اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ نہایت خوشی کے ساتھ ان کی تقریر سنی جاتی تھی، لوگوں کی خواہش ہوتی کہ تقریر کا سلسلہ جاری رہے۔ تقریر کے علاوہ ان کی عام مجلس بھی مسرت آفرینی کا باعث ہوتی تھی۔ وہ لطیفے کے انداز میں بڑی پیاری اور میٹھی باتیں کرتے تھے۔ دوسرے کی بات بھی نہایت توجہ سے سنتے اور اپنی بھی دلچسپ پیرائے میں دوسرے کو سناتے تھے۔ وہ جماعت اہلِ حدیث کے پرانے بزرگوں کی باتیں (جن میں مولانا ثناء اللہ صاحب امر تسری رحمہ اللہ اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں )بڑے اہتمام اور شوق سے بیان کرتے تھے۔ جماعت کے پرانے عوامی واعظوں اور مقرروں کے واقعات بھی انھیں خوب یاد تھے۔ مثلاً مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی، حافظ محمد اسماعیل روپڑی، مولانا علی محمد صمصام اور مولانا میر محمد بھامبڑوی رحمہم اللہ کا تذکرہ خوبصورت اسلوب میں بیان کرتے تھے۔ وہ خوش مزاج، خوش طبع، خوش اخلاق اور خوش کلام عالم تھے۔ چھوٹے بڑے ہر شخص سے خوش دلی سے ملتے اور ہر شخص سے اس کے مرتبے کے مطابق بات کرتے تھے۔ سب کی عزت کرتے تھے اور سب سے عزت کراتے تھے۔ اپنے ہم مسلک حضرات میں بھی مستحقِ تکریم سمجھے جاتے تھے اور غیر مسلک کے حاملین میں بھی اکرام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ وہ سراپا خلوص واعظ و مبلغ تھے۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری حفظہ الله : ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۵۷ء سے ۱۹۹۷ء تک چالیس برس کے عرصے میں ادب، تاریخ، مذہب، سیاست، سوانح، صحافت وغیرہ موضوعات سے متعلق پچاس سے زیادہ کتابیں شائع کیں ۔ ان کتابوں میں ان کی تصانیف بھی شامل ہیں اور وہ کتابیں بھی شامل ہیں جو ان کی کوشش و محنت سے ترتیب و تدوین کے مراحل سے گزریں اور جن پر انھوں نے گراں قدر مقدمات و حواشی تحریر کیے۔ تحقیق کی روشنی میں ان کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے، مگر ہر شخص کا اپنا ذہن اور اپنی سوچ ہے اور اپنا پیمانۂ فکر ہے۔ میں سمجھتا اور میرے ساتھ ہزاروں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری نے گذشتہ چالیس بیالیس سال میں جو مواد برصغیر پاک و ہند کے اہلِ علم کو دیا ہے اور جس زبان و انداز میں دیا ہے اور جس شائستگی اور حسنِ اسلوب میں دیا ہے، وہ قابلِ قدر اور لائقِ توصیف ہے۔ وہ شگفتۂ قلم اور شائستہ بیان مصنف، لیکن الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ ان کے خزانۂ ذہن میں محفوظ ہے۔ جملوں کا در و بست نہایت عمدہ اور اظہارِ مدعا کا طریقہ بڑا دل آویز۔۔۔ وہ سنجیدۂ فکر اہلِ قلم اور پختہ ذہن کے مصنف، لیکن انھوں نے بہت سی نایاب و نادر کتابوں سے لوگوں کو متعارف کرایا اور ان پر مناسب انداز میں مقدمات و حواشی لکھ کر قارئین پر بے حد احسان کیا ہے۔
Flag Counter