Maktaba Wahhabi

189 - 924
یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ آپ علومِ دینیہ و شرعیہ میں آگے چل کر کمال پیدا کر سکتے ہیں ۔ ؂ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات چنانچہ آپ کو مولانا بھوجیانی رحمہ اللہ کے حوالے کر دیا اور آپ ان سے کسبِ فیض کرتے رہے اور پھر یہاں سے ____ ’’کھوکے‘‘ چلے گئے، جو تقسیمِ ہند سے قبل تقریباً سوا سو سال سے مرکزِ علم و عرفان کی حیثیت سے جانا جاتا تھا، جہاں متعدد علمائے کرام پیدا ہوئے، انہی میں سے اپنے عہد کے جلیل القدر عالمِ دین مولانا محمد علی لکھوی رحمہ اللہ کے اصرار پہ جنوری ۱۹۳۷ء میں ان کے قائم کردہ ادارہ مرکز الاسلام میں مولانا بھوجیانی رحمہ اللہ تشریف لے گئے، چنانچہ بھٹی صاحب بھی اپنے استاذ کے ساتھ ایک طالبِ علم کی حیثیت سے چلے گئے اور وہاں حدیث، اصولِ حدیث، صرف و نحو اور منطق کی چند ابتدائی کتابیں پڑھیں ، احبابِ جماعت کی خواہشوں کو دیکھتے ہوئے مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ فیروز پور منتقل ہو گئے اور وہاں آپ کا حلقہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ مولانا اسحاق بھٹی ۱۹۴۰ء تک اپنے محترم استاذ مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ سے گنجینۂ علم و حکمت حاصل کرتے رہے، اس دوران میں آپ نے ان سے رحمۃ للعالمین، گلستاں ، بوستاں ، بلوغ المرام، کتبِ ستہ، علمِ نحو و صرف، سبعہ معلقہ، متنبی، حماسہ، مقاماتِ حریری، شرح تہذیب، نخبۃ الفکر، مقدمہ ابن الصلاح، اصول شاشی، قدوری، شرح وقایہ، ہدایہ، بیضاوی، جلالین اور دوسری کتابوں کا بھی علم حاصل کیا۔ رحمہم اللّٰه رحمۃ الأبرار۔ ۱۹۴۰ء میں حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب رحمہ اللہ کی ہدایات کے مطابق آپ علامۂ وقت حافظ محمد گوندلوی اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہم اللہ کی خدمت میں گوجرانوالہ پہنچے اور گوندلوی صاحب رحمہ اللہ سے موطا امام مالک اور صحیح بخاری دوبارہ پڑھیں ۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ سے بیضاوی، شرح وقایہ اور ہدایہ و حماسہ کا درس لیا۔ اساتذۂ کرام: آپ کے اساتذہ کا حلقہ انتہائی محدود ہے، لیکن پھر بھی آپ نے جن جن سے اکتسابِ فیض کیا ہے، وہ سب مختلف علوم و فنون کے امام اور مرجع کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ، چنانچہ آپ کے اساتذۂ گرامی کے اسما اس طرح ہیں : (۱)۔ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ ۔ (۲)۔ علامہ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ ۔ (۳)۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ۔ عملی زندگی: آپ کی عملی زندگی تجربات و مشاہدات اور حادثات و واقعات کا ایک بیش بہا خزانہ ہے، ان ایام میں علامہ رحمہ اللہ نے ملکی، ملی، سیاسی اور سماجی نشیب و فراز دیکھے۔ آزادیِ ہند اور تقسیم ملک کا سانحہ اور اس کے اثرات بھی آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ انگریزی دورِ حکومت میں ملک کی آزادی کی خاطر متعدد بار جیل کی کال کوٹھریوں
Flag Counter