Maktaba Wahhabi

193 - 924
خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا تحریر: جناب محمد خالد چودھری۔ لاہور گذشتہ دسمبر کی ۲۲ تاریخ کی علی الصبح مولانا عائش نے فون پر بتایا کہ جناب اسحاق بھٹی صاحب انتقال کر گئے۔ اس کے ساتھ ہی حماد شاکر صاحب کا پیغام ملا اور از حد صدمہ ہوا۔ جناب محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے غائبانہ تعارف ۸۰ء کی دہائی میں ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں ایک خاکے سے ہوا، جس کا عنوان ’’ذیل سنگھ گیانی۔۔۔۔۔ میرا جانی‘‘ عامیانہ سا جانتے ہوئے نہ پڑھا۔ بعد کے پرچوں میں مولانا ابو الکلام آزاد، سید داود غزنوی اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہما اللہ کے خاکے پڑھ کر پرانا پرچہ ڈھونڈ کر ’’ذیل سنگھ گیانی‘‘ کا خاکہ پڑھا۔ ان شخصیات کا جس بھرپور انداز میں احاطہ کیا گیا تھا، اس سے لکھنے والے کی جز نگاری، یادداشت، زبان دانی اور زبردست مشاہدے کا اندازہ ہوا۔ مجیب الرحمن شامی صاحب سے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ وہ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے وابستہ ہیں ۔ وہاں پہنچا تو بھٹی صاحب رحمہ اللہ دروازے کے عین سامنے میز کے پیچھے کرسی پر براجمان تھے۔ چہرہ دروازے کی طرف تھا، چھوٹی سیاہ ڈاڑھی، مسکراتا ہوا چہرہ اور مضبوط اور چوڑی کلائیوں والے اسحاق بھٹی صاحب نے نہایت اپنائیت اور بے تکلفی سے پرتپاک استقبال کیا، سامنے کرسی پر بٹھایا اور بلا تمہید گفتگو شروع کر دی۔ چائے منگوائی۔ جب غائبانہ تعارف اورعنوان کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ عنوان تو سادہ ہی تھا، لیکن پرچے کے ذمے داران کی غیر ذمے داری سے تبدیل ہو گیا۔ چھپے ہوئے اور زیرِ تحریر خاکوں کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ قیافے سے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ سے ہماری عقیدت کا اندازہ کرکے مولانا رحمہ اللہ سے اپنی پہلی ملاقات کی روداد سنائی جو ۱۹۴۱ء میں جماعت کے پہلے اجتماع میں ہوئی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ دو اور اصحاب کے ساتھ اس میں شریک ہوئے۔ فرمایا کہ مولانا رحمہ اللہ کی خشخشی سیاہ ڈاڑھی تھی۔ سفید کرتا اور چوڑی دار پاجامہ پہنے ہوئے تھے۔ بحث کے بعد جماعت اسلامی نام تجویز اور منظور ہوا۔ رکن، متفق اور ہمدرد تین درجے وابستگی کے تھے، بقول بھٹی صاحب رحمہ اللہ ان تینوں میں سے ایک رکن، ایک متفق اور وہ ہمدرد بنے۔ دونوں حضرات تو بعدمیں جماعت سے علاحدہ ہوگئے، لیکن کہا کہ میری ہمدردی اب تک ہے۔ اجلاس میں شامل اکثر حضرات کے لباس، تراش خراش اور گفتگو کے فقرے تک یاد تھے۔
Flag Counter