Maktaba Wahhabi

202 - 924
اسحاق بھٹی صاحب ۔۔ مجھ کو یوں ملے کہ! تحریر: جناب ابوبکر قدوسی۔ لاہور سعادت کی زندگی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی، جو محترم اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے گزاری، اور عزت کی موت ان کی موت کو نہ کہا جائے تو اور کس کو کہا جائے گا؟ گزری صبح عین فجر کے وقت عمرفاروق قدوسی کا برقی پیغام ملا کہ اسحاق بھٹی صاحب فوت ہوگئے ہیں ۔ دکھ کی لہر میرے اندر تک اتر گئی۔ بیس برس پرانی شام کا دھندلا منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ جب شام کے سائے اتر رہے تھے، اشرف جاوید میرے سامنے بیٹھے کہہ رہے تھے کہ ’’ آپ کے والد تاریخِ اہلِ حدیث پر کام کرنا چاہ رہے تھے، نہ کر سکے۔ یہ ذوق آپ کو بھی وراثت میں ملا ہے، سو اس کام کو آگے بڑھانا آپ پرقرض ہے۔‘‘ میں نے عرض کی: ’’قرض چکانے کی کیا صورت ہو؟‘‘ کہنے لگے: ’’اسحاق بھٹی صاحب نے شخصیات پر خاصا کام کر رکھا ہے، ان سے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی درخواست کی جائے۔‘‘ اٹھتی جوانی کے دن تھے، میرے اندر جوش ضرورت سے بھی کچھ زیادہ ہی تھا۔ پس میں نے کہا: ’’دیر کیوں ، ابھی چلتے ہیں ۔‘‘ ہم اٹھے اور بھٹی صاحب کے گھر چل دیے۔ میری اس وقت تک ان سے چند ہی ملاقاتیں تھیں ، کچھ اندازہ نہ تھا کہ کس طرح پیش آئیں گے۔ ’’غریبوں ‘‘ کی اس قدیم بستی کو ’’ساندہ کلاں ‘‘ کہتے ہیں ، جہاں دماغ کا یہ بے پناہ امیر انسان رہتا تھا۔ ہم وہاں پہنچے، وہ گھر میں موجود تھے، ترشوائی ہوئی رنگی ہوئی سیاہ خشخشی ڈاڑھی، میانہ قد، گندمی رنگ۔ ایک بزرگ ہمارے سامنے بیٹھے تھے۔ ہم نے عرض گزاری کہ ’’اپنا لکھا ہمیں دے دیجیے، بہت سوں کا بھلا ہوگا۔‘‘ ہم نے تو جیسے جان ہی مانگ لی تھی۔ اپنا لکھا جان سے بھی پیارا ہوتا ہے۔ کہنے لگے کہ ’’ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کو اعتراض ہوگا۔‘‘ میں نے عرض کی کہ آپ ادارہ چھوڑ چکے ہیں ، اب کسی کو کیا غرض کہ آپ کیا کرتے ہیں ؟ ان دنوں ادارہ ثقافت کے ڈائریکٹر رشید جالندھری تھے، جو مبینہ طور پر قادیانی کہے جاتے تھے اور انھوں نے بھٹی صاحب کو خاصا تنگ کیا تھا۔ اس بنا پر ہی بھٹی صاحب ادارہ چھوڑ کر گھر آن بیٹھے تھے اور نصف صدی کے بعد
Flag Counter