Maktaba Wahhabi

223 - 924
میرے دل نے آواز لگائی کہ اس کتاب کو جیسے بھی ہو، دوبارہ شائع ہونا چاہیے۔ چنانچہ میں نے اباجی رحمہ اللہ سے مشورہ کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: ’’اس کا مطلب ہے، کتاب تم نے پڑھ لی اور سمجھ کر پڑھی ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: کچھ بات بن ہی گئی ہے۔ اگر اجازت دیں تو مولانا رحمہ اللہ سے اس کی اشاعت کی اجازت لے لوں اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ سے اس پر کچھ لکھوا لوں ، انھوں نے بڑی مسرت سے اس کی اجازت دے دی۔ میں نے اس کام کو مہم کے طور پر شروع کر دیا۔ کتاب کو پھر سے اس نقطۂ نظر سے پڑھنا شروع کیا اور ان چند مقامات پر نشانات لگائے، جہاں میری ناقص رائے میں کچھ اضافے اور رد و بدل کی ضرورت تھی۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے پہلی ’’غائبانہ‘‘ ملاقات: میں دو چار روز بعد ہی لاہور روانہ ہوا۔ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ پہنچا، جہاں مولانا محمدحنیف ندوی رحمہ اللہ ہوتے تھے، وہاں ایک صاحب ملے۔ میں نے ان سے مولانا رحمہ اللہ کے بارے پوچھا، انھوں نے کمرے کی طرف اشارہ کیا، میں ادھر ہی چل پڑا، کمرے میں ایک صاحب تشریف فرما تھے، میں اندر داخل ہوا، انھیں سلام کیا، وہ اٹھے تو میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، خیر خیریت کے بعد فرمانے لگے: فرمائیے! کیا خدمت کروں ؟ میں نے عرض کیا: مولانا حنیف ندوی صاحب سے ملنا ہے، کیا ملاقات ہو سکتی ہے؟ وہ صاحب گویا ہوئے، مولانا تشریف نہیں رکھتے، وہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے۔ میں نے عرض کیا: کب ملیں گے؟ بولے: آج نہیں پرسوں ملاقات ہو سکے گی، وہ کسی مصروفیت کے باعث دو دن تشریف نہیں لائیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ میں اتنے دن تو ٹھہر نہیں سکتا۔ پھر کسی روز حاضر ہو جاؤں گا، اب مجھے اجازت دیجیے۔ فرمانے لگے: چائے پیئے بغیر جانے کی اجازت نہیں ۔ میں نے چائے کی معذرت کی اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، انھوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرا ہاتھ تھاما اور فرمانے لگے: بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ مولانا سے کوئی ملنے آئے اور بغیر چائے پئے چلا جائے۔ میں بیٹھ گیا، انھوں نے چائے کے لیے آواز دی اور تھوڑی دیر بعد ہی چائے مع بسکٹ ہمارے سامنے تھی۔ ہم خاموشی سے چائے پینے لگے، ان صاحب نے بسکٹ والی پلیٹ میرے آگے اس انداز میں کی کہ مجھے پلیٹ سے چارو ناچار بسکٹ اٹھانا پڑا۔ چائے سے فراغت کے بعد میں فوراً اُٹھا، مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔ فرمانے لگے: لگتا ہے بہت جلدی میں ہیں ۔ میں نے کہا: گاڑی روانہ ہونے میں وقت بہت کم ہے، اس لیے اب چلنا ہی ہوگا۔ انھوں نے ایک دفعہ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: گاڑی کا کیا ہے، یہ تو آتی جاتی رہتی ہے، آپ میرے غریب خانے چلیے، کھانا کھائیں گے، باتیں کریں گے، پھر آرام سے سوئیں گے، صبح ناشتہ کرکے چلے جائیے گا۔ عرض کیا: آپ کی اُلفت و مودت کے لیے میں تہ دل سے شکر گزار ہوں ، مجھے بہر صورت واپس پہنچنا ہے، گھر میرا انتظار ہو رہا ہو گا اور میں بغیر اطلاع دیے رات گھر سے باہر نہیں رہتا، اب آپ کو مجھے اجازت دینا ہی ہوگی، میں اٹھا اور مصافحہ کر کے السلام علیکم کہا اور فوراً کمرے سے باہر آگیا۔
Flag Counter