Maktaba Wahhabi

224 - 924
اس ملاقات میں نہ مَیں نے ان کا نام پوچھا نہ انھوں نے میرا نام معلوم کیا۔ سامنے ہی وہ صاحب ملے جنھوں نے مجھے اندر بھیجا تھا، میں نے سلام کر کے ان سے پوچھا: یہ کون صاحب تھے، جن سے میں ملا تھا؟ حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولے: اتنی لمبی ملاقات اور ضیافت کے بعد بھی ان سے تعارف نہیں ہوا؟ میں نے کہا: نہ انھوں نے مجھ سے پوچھا، نہ ہی میں نے ان سے معلوم کیا۔ وہ میری طرف بڑے ہی عجیب سے انداز سے دیکھ رہے تھے، میں نے بڑی لجاجت سے کہا، بتائیے نا یہ کون صاحب تھے؟ وہ کہنے لگے: یہ مردِ حق آگاہ مولانا محمد اسحاق بھٹی ہیں ۔ میرا دل چاہا کہ ان سے دوبارہ مل کر جاؤں ، لیکن وقت اس کی اجازت نہیں دے رہا تھا، طوعاً کرہاً واپس چلا آیا۔ یہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے پہلی ’’غائبانہ‘‘ ملاقات تھی۔ لائل پور پہنچ کر ابا جی رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے پوچھاکہ کیا کر کے آئے ہو؟ میں نے ساری داستان سنائی، فرمانے لگے: چلو اچھا ہوا، مولانا اسحاق بھٹی سے ملاقات ہوگئی، اب مولانا ندوی سے ملاقات آسان بھی ہو جائے گی اور کام بھی آسانی سے ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ یوں ان سے بھی رابطہ رکھیں ، بڑے اچھے اور کام کے آدمی ہیں ۔ میرا حوصلہ اور بڑھا۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے دوسری ملاقات اور تعارف: میں نے لاہور ایک ماہ بعد جانا تھا، لیکن اس شوق نے اگلے ہفتے ہی پروگرام بنا لیا اور لاہور روانہ ہوگیا۔ لاہور پہنچ کر سیدھا ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ پہنچا، وہاں پھروہی صاحب ملے، میری طرف غور سے دیکھا اور کہا:بھٹی صاحب بس آنے ہی والے ہیں ، آپ اس کمرے میں تشریف رکھیں ۔اس مرتبہ مجھے وہ دوسرے کمرہ میں لے گئے اور بولے: آج بھٹی صاحب ادھر ہی آئیں گے اوروہ ساتھ والا کمرہ مولانا ندوی صاحب کا ہے۔ اب میں مولانا اسحاق بھٹی( رحمہ اللہ )کے انتظار میں بیٹھا تھا اور سوچوں میں گم کہ آج کی ملاقات میں کیا ہوگا؟ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، میری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ کوئی آدھا گھنٹہ گزر گیا، میں نہ کہیں جا سکتا تھا نہ مزید بیٹھنے کی تاب تھی، میں ابھی اسی ادھیڑ بن میں مصروف تھا کہ مولانا محمد اسحاق بھٹی تشریف لے آئے۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی، میں اٹھا، جلدی سے ان سے بغلگیر ہوا، مصافحہ کیا، دیر تک میں نے ان کا ہاتھ تھامے رکھا، وہ مجھے غور سے دیکھتے رہے، پھر کرسی پر برا جمان ہوگئے۔ میں نے خیر خیریت دریافت کی۔ فر مانے لگے: اپنا تعارف تو کروائیے، یا غائبانہ ملاقاتیں ہی ہوتی رہیں گی؟ عرض کیا: ’’میں خالد اشرف ہوں ، لائل پور سے حاضر ہوا ہوں ۔‘‘ بھٹی صاحب رحمہ اللہ یہ سن کر فوراً اٹھے اور میرے پاس آکر اپنے بازو پھیلا دیے، میں اٹھ کر اُن سے بغلگیر ہوگیا، وہ مجھ سے ایسے چمٹے کہ جیسے اپنے وجود میں میرا وجود سمو دینا چاہتے ہوں ۔ کچھ دیر تک وہ یوں ہی میرے گلے لگے رہے۔ اپنی نشست پر بیٹھ کر وہ بزرگِ با صفا مسکرا کر میری طرف دیکھتے رہے۔ فرمانے لگے: آج کافی دیر بعد حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب کو آپ کے روپ میں دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی، چلیے آپ کے توسط سے ان سے ملاقات بھی ہو ہی جائے گی۔(محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی اس عزت افزائی سے میری آنکھیں ندامت سے جھک گئیں کہ کہاں میں اور کہاں ابا جی رحمہ اللہ )فرمایا: کہیے حکیم صاحب کیسے ہیں ؟ صحت کا کیا
Flag Counter