Maktaba Wahhabi

279 - 924
مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے آخری ملاقات! تحریر: جناب محبوب عالم تھابُل۔ لاہور میرے والد مرحوم علامہ محمد عالم مختار حق(متوفی: ۶؍ مارچ ۲۰۱۴ء)نے مولانا غلام رسول مہر ؔ(متوفی: ۱۶؍ نومبر ۱۹۷۱ء)کے مرزا غالبؔ پرلکھے ہوئے مقالات کو ’’غالبیاتِ مہرؔ‘‘ کے نام سے مرتب کیا اور اشاعت کے لیے مجلس ترقی ادب لاہور کے حوالے کر دیا۔ یہ مسودہ بڑے عرصہ تک وہاں پڑا رہا، حتیٰ کہ کمپوزنگ کے مراحل طے کر کے پروف ریڈنگ کے لیے والد مرحوم کے پاس پہنچ گیا۔ انھوں نے اپنی وفات سے تقریباً ایک سال قبل پروف ریڈنگ مکمل کر کے یہ کتاب واپس مجلس کے حوالے کر دی، تاکہ اشاعت پذیر ہو، مگر شاید اپنی زندگی میں اپنی اس تالیف کو مطبوعہ صورت میں دیکھنا ان کی قسمت میں نہ تھا اور وہ بار بار یاد دہانی کراتے کراتے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کی وفات کے بعد یہ کتاب ۲۰۱۵ء میں منصہ شہود پر آئی اور مجھے سات دسمبر ۲۰۱۵ء کو اس کے اعزازی نسخے موصول ہوئے۔ میں نے اپنے والد مرحوم کی عادت کے مطابق یہ نسخے ان کے دوستوں میں تقسیم کرنا شروع کیے اور ابتدا بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے کی۔ ۸؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو ان کے لیے ایک نسخہ لے کر ان کے درِ دولت پر حاضر ہوا۔(اس سے قبل میں ٹیلی فون پر حاضری کی اجازت لے چکا تھا)۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو ان کے برادرِخورد سعید احمد صاحب نے دروازہ کھولا، مجھے اندر بٹھایا اور بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو اطلاع کرنے چلے گئے۔ چند سیکنڈ بعد بھٹی صاحب رحمہ اللہ تشریف لے آئے۔ آپ اس وقت شلوار کے بجائے چادر باندھے ہوئے تھے۔ بڑے تپاک سے ملے، گلے لگایا اور اپنے پاس کرسی پر بٹھایا۔ میں نے ’’غالبیاتِ مہرؔ‘‘ پیش کی تو دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ عالم صاحب رحمہ اللہ کی محنت ٹھکانے لگی، گو وہ اسے دیکھنے سے محروم رہے۔ فرمایا کہ مولانا مہرؔ صاحب رحمہ اللہ بھی چادر باندھا کرتے تھے اور اسی طرح اپنی کرسی پر بیٹھا کرتے تھے۔ میں نے لقمہ دیا کہ ’’اور اسی طرح ان کے اردگرد کتابیں بھی پڑی ہوتی تھیں ۔‘‘ جس پر آپ بہت محظوظ ہوئے۔ اتنی دیر میں سعید صاحب چائے مع لوازمات لے کر آ گئے اور ہم نے چائے نوشی شروع کر دی۔ چونکہ یہ کتاب ’’مجلس ترقی ادب‘‘ لاہور نے چھاپی تھی، جس کا دفتر کلب روڈ پر واقع ہے، اس لیے بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے کلب روڈ کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کیں اور فرمایا کہ ’’میرا دفتر ’’ادارہ ثقافتِ اسلامیہ‘‘ بھی اسی بلڈنگ میں واقع تھا(اور ابھی تک موجود ہے)یہ ادارے نرسنگھ داس گارڈن میں واقع ہیں ۔ اس کے مالک کا بیٹا تقسیمِ ہند کے بعد ایک
Flag Counter