Maktaba Wahhabi

288 - 924
لے آئے۔ یہ جگہ قدیمی درس گاہ ’’موضع لکھو کے‘‘ ضلع فیروز پور سے دو میل کے فاصلے پر تھی۔ ۱۹۳۷ء کے آخر میں یہاں سے مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب رحمہ اللہ کو فیروز پور شہر کی مسجد اہلِ حدیث گنبد والی کی انتظامیہ، مولانا محمد علی لکھوی رحمہ اللہ سے اجازت لے کر تدریس و خطابت کے لیے ہمراہ لے آئے۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے ’’بلوغ المرام‘‘ سے لے کر ’’صحیح بخاری‘‘ تک احادیثِ کتب ستہ پڑھیں ۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ کے اولین تلمیذِ رشید تھے۔ بطور تحدیثِ نعمت اپنے آپ کو ان کا ’’پلوٹھی‘‘ کا شاگرد کہاکرتے تھے۔ فیروز پور میں ان کے استاد محترم مولانا ثناء اللہ ہوشیار پوری رحمہ اللہ بھی شامل ہیں ۔ مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو مزید تعلیم و رسوخ کے لیے گوجرانوالہ بھیج دیا۔ یہاں استاذ المحدثین حافظ محمد گوندلوی و شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ سے بعض کتبِ درسیہ دوبارہ پڑھ کر خوب استفادہ کیا۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں ، بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی آپ بیتی ’’گزر گئی گزران‘‘ یا پروفیسر فوزیہ سحر ملک کی کتاب ’’محمد اسحاق بھٹی کی خاکہ نگاری، تنقیدی و تحقیقی جائزہ‘‘۔ ملازمت، تدریس: ۱۹۴۲ء کو مروجہ تعلیم سے فراغت کے بعد ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر محکمہ انہار کے دفتر میں بطور کلرک ملازمت آغاز کیا۔ ایک سال سے بھی کم عرصہ ملازمت کی۔ مارچ ۱۹۴۳ء کو بھٹی صاحب رحمہ اللہ مسجد گنبداں والی فیروزپور شہرمیں اپنے استاد محترم مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے ہاں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ مولانا نے فرمایا: ’’اچھا ہوا، تم آگئے، کل مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ آئے تھے اور تمھارے متعلق پوچھ رہے تھے۔ جلدی اپنے مادر علمی مرکز الاسلام پہنچو۔ یہ مرکز ’’لکھوکے‘‘ سے دو میل کے فاصلے پر تھا۔ یہاں سلسلہ تدریس جاری رہا۔ قیام پاکستان ۱۹۴۷ء تک یہیں عمل تدریس سے ہی وابستہ رہے۔ ۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے چک ۵۳؍ گ ب ڈھیسیاں منصور پورہ تحصیل جڑانوالہ ضلع لائل پور(فیصل آباد)مہاجرین کے ہمراہ اہلِ خاندان آئے۔ کچھ عرصہ بعد مرکزی جمعیت اہلِ حدیث مغربی پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مہربان خاص استاد محترم مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب رحمہ اللہ کی مساعیِ جمیلہ سے آفس سیکرٹری دفتر مقرر کیے گئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے ایڈیٹر بنائے گئے۔ آغازِ ادارت انھیں قاضی محمد اسحاق لکھا جاتا تھا۔ یہ منصب و منزل بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی اُفتاد طبع و مزاج سے زیادہ ہم آہنگ نہ تھی۔ سولہ سال بطور مدیر خدمات سر انجام دیں ۔ یہ عرصہ جماعتی اعتبار سے سنہری دور کہلاتا ہے۔ اسی دوران ہفت روزہ ’’توحید‘‘ لاہور، سہ روزہ ’’منہاج‘‘ لاہور کے بھی مدیر رہے۔ ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت سے الگ ہونے کے بعد نیم سرکاری ادارے ’’ادارہ ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کلب روڈ لاہور سے وابستہ ہوئے۔ یہاں بتیس سال خدمات انجام دیں ۔ ۱۶؍ مارچ ۱۹۹۶ء کو اس ادارہ سے علاحدگی اختیار کی۔ اس عرصے میں ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کے مجلہ ’’المعارف‘‘ کے مدیر رہے۔ اس میں خود بھٹی صاحب رحمہ اللہ اداریہ، ایک
Flag Counter