Maktaba Wahhabi

314 - 924
چراغ بجھ گیا، قلم رُک گیا! تحریر: جناب مولانا محمد صفدر عثمانی۔ گوجرانوالہ محققِ رجال مورخ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ، اہلِ حدیث کے بڑے روشن ستاروں میں سے ایک ستارہ تھا جو ٹوٹ گیا۔ یوں یہ چراغ بجھ گیا اور قلم رک گیا۔ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء بعد از نمازِ فجر بروز منگل، ۱۰؍ ربیع الاول ۱۴۳۷ھ، میو ہسپتال لاہور میں دو دن داخل رہنے کے بعد انتقال فرما گئے۔ إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ تقریباً دس بجے کا وقت تھاکہ موبائل فون کی بیل بجی، فون اٹھایا تو مولانا طیب محمدی حفظہ اللہ فرمانے لگے کہ کیا پروگرام ہے؟ ان کے علم میں تھا کہ شاید مجھے وفات کی یہ خبر مل چکی ہے۔ میں نے پوچھا: کس بات کا؟ تو فرمانے لگے کہ آپ کو پتا نہیں ؟ مولانا محمد اسحاق بھٹی فوت ہو گئے ہیں ! اچانک یہ خبر سن کر کچھ سمجھ نہ آئی، کچھ دیر بعد ادھر ادھر دوست و احباب سے پوچھ گچھ شروع ہوگئی کہ کس نے کیسے جانا ہے یا کوئی اجتماعی گاڑی کا انتظام کرناہے؟ میں نے جامعہ محمدیہ میں مولانا خالد بن بشیر حفظہ اللہ کو فون کیا کہ اگر شیوخ حضرات نے جانا ہے اور کوئی سیٹ ہو تو مجھے بھی ساتھ لیتے جائیں ۔ انھوں نے فرمایا: آج جامعہ سلفیہ میں اجلاس ہے، شیخ عبدالحمید حفظہ اللہ تو وہاں چلے گئے ہیں ، میں مدرسے کے طلبا سے پتا کرتا ہوں کہ اگر انھوں نے جانا ہے تو بتاتا ہوں ۔ اتنی دیر میں طیب محمدی حفظہ اللہ کا فون دوبارہ آگیا کہ مولانا ابرار ظہیر صاحب جماعت کی طرف سے گاڑی کا انتظام کر رہے ہیں ۔ ہماری تو وہاں سیٹ ہو چکی ہے، آپ ان سے رابطہ کر لیں ۔ چنانچہ میں نے ان سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن دفتر آجائیں ۔ تقریباً بارہ بجے گاڑی چل پڑی اور دو بجے ناصر باغ لاہور پہنچ گئے۔ وضو کیا اور نمازِ جنازہ کی صف میں جا ملے۔ پروفیسر مولانا حماد لکھوی حفظہ اللہ نے جنازہ پڑھانا تھا۔ وہ فرمانے لگے کہ کچھ حضرات کا فون آیا ہے کہ ہم آرہے ہیں ، لہٰذا چند منٹ انتظار فرمائیں ۔ انھوں نے وہ چند منٹ بھی بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے تعلقات کے حوالے سے نبھائے اور راقم نے وہیں صف ہی میں ظہر کی دو رکعت نماز ادا کی۔ محترم حماد لکھوی صاحب نے نہایت ہی رقت آمیز لہجے میں جنازہ پڑھایا، تقریباً ہر آدمی ایسے خلوص سے دعا کر رہا تھا اور رو رہا تھا، جیسے اس کا باپ فوت ہوگیا ہے! اس میں شک نہیں کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ مرحوم علم، عمر اور کام کے اعتبار سے تمام اہلِ حدیث کے روحانی باپ ہی تھے۔ انھوں نے جس قدر تاریخ اور رجال پر کام کیا ہے، اس کا اب احساس ہو رہا ہے۔ وہ یوں کہ راقم الحروف،
Flag Counter