Maktaba Wahhabi

317 - 924
مورخِ اہلِ حدیث سے یادگار ملاقات تحریر: جناب محمد احسان الحق شاہ ہاشمی، یاروخیل۔ میانوالی مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ۔ وہ تو وہ شخص تھے جنھوں نے اہلِ حدیث کو ان کی تاریخ اور اکابر سے روشناس کرانے میں زندگی گزار دی۔ مرحوم سے غائبانہ تعارف تو تھا ہی، مگر بالمشافہہ تعارف جماعت اہلِ حدیث کے سالانہ اجلاس(۲۰۱۵ء)میں ہوا، جس میں مفسر قرآن حافظ عبدالوہاب روپڑی صاحب مدظلہ العالی کے علاوہ جماعت کے سر براہ فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالغفار روپڑی حفظہ اللہ نے نہ صرف اجلاس میں شرکت کی خصوصی دعوت دی تھی، بلکہ ان کے ایما پر اسٹیج سیکرٹری جناب پروفیسر عبدالمجید صاحب نے بندہ کا تعارف کچھ اس انداز میں کرایا کہ بقول شاعر: ’’پانی پانی کر گئی، مجھ کو قلندر کی یہ بات‘‘ کے مصداق، میں اپنی کم مائیگی پر دل میں پشیمانی محسوس کر رہا تھا اور زبانِ حال سے کہہ رہا تھا: ’’جس قدر دیا رب تو نے مجھ کو اتنی میری اوقات نہ تھی۔‘‘ اسی اجلاس میں حافظ عبدالوہاب روپڑی صاحب نے مو لانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا ایسے جامع الفاظ میں تعارف کرایا کہ سامعین عش عش کر اُٹھے۔ منکسر المزاج مولانا بھٹی صاحب مرحوم ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ حافظ روپڑی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نہایت عاجزانہ انداز میں گویا ہوئے: ’’ہم تو ان کے مُرید ہیں ۔‘‘ اس پر ان کے مابین پیر اور مرید کے الفاظ پر مزاحیہ جملوں کا تبادلہ ہونے لگا، جس کے تناظر میں یہ ناچیز عرض پرداز ہوا کہ ’’کچھ بھی ہو، آپ دونوں ہماری مراد ہیں ۔‘‘ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ اپنی حیات ہی میں ’’مورخِ اہلِ حدیث‘‘ کے خطاب سے مشہور ہوئے۔ آپ کو یہ لقب کس نے اور کب دیا؟ یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن سچ یہ ہے، جس نے بھی دیا، اس نے اس لفظ کا حق ادا کر دیا۔ مولانا موصوف کو تاریخ اہلِ حدیث پر عبور حاصل تھا۔ علم الرجال کے ماہر و فاضل تھے۔ انھوں نے ہمارے اکابر کی تاریخ کو صفحات قرطاس پر محفوظ فرما کر علم و عقیدت کا ایسا خاموش مظاہرہ فرمایا کہ اقبال کے الفاظ میں : ’’ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو۔‘‘ کچھ عرصہ قبل ایک دوست کا میرے ساتھ ایک نقطے پر اختلاف ہو گیا۔ میرے دوست کا خیال تھا کہ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ اور پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری رحمہ اللہ کے مابین علمی اور نسبی تعلق تھا۔ میرا موقف یہ تھا کہ یہ
Flag Counter