Maktaba Wahhabi

345 - 924
آہ۔۔۔ وہ اک شخص انجمن تھا! تحریر: جناب یاسر اسعد اعظمی، مؤناتھ بھنجن۔ انڈیا ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کا دن جماعت اہلِ حدیث کے لیے بے حد المناک ثابت ہوا، مولانا محمد اسحاق بھٹی اور مولانا عبداللہ مدنی رحمہ اللہ(جھنڈانگری)کی وفات نے جماعت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ۱۹۹۹ء کے عام الحزن کی یاد تازہ کر دی۔ جماعت اہلِ حدیث کی آبرو اور اس کا سہارا، اس کے منفرد مورخ اور صاحبِ طرز ادیب مولانا محمد اسحاق بھٹی کی وفات حسرتِ آیات کی خبر جس نے بھی سنی، ساکت رہ گیا ۔خبرکی صداقت پر یقین کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا، کیوں کہ وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ پل بھر میں اتنے بے سہارا ہو جائیں گے۔ إن العین تدمع و القلب یحزن ولا نقول إلا ما یُرضي ربنا وإنا بفراقہ لمحزونون۔ قحط الرجال کے اس دور میں کبار علما کی مسلسل رحلت کی خبریں قربِ قیامت کا اشارہ دے رہی ہیں ۔ یہ علم کی رحلت نہیں تو اور کیا ہے کہ جب ہمارے اسلاف کی کاوشوں کو اپنے قلم سے صفحہ قرطاس پر نقل کر کے ہمارے سامنے پیش کرنے والے ہی نہ رہیں گے تو پھر ہم اپنی تاریخ سے بے خبر ہوکر قصہ پارینہ ہوجائیں گے۔ طویل عمری اکثر لوگوں کے لیے باعثِ مشقت و حرج ہوتی ہے، مگر کچھ نفوسِ قدسیہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی حیاتِ طیبہ دوسروں کے حق میں سراپا خیر ہوتی ہے۔ ساٹھ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انسان کے قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں اور اعضا جواب دیتے ہیں ، مگر جس شخص کا نوے، اکیانوے برس کی عمر تک حرکت و عمل سے برابر رشتہ استوار ہو، بلکہ عام لوگوں کی نسبت اس کے کارنامے بھی زیادہ ہوں ، خصوصاً اس صورت میں جب کہ اس کا کوئی معاون و مددگار نہ ہو تو یہ کرامت نہیں تو اور کیا ہے! جی چاہتا ہے کہ بس بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی تعریف میں قلم رطب اللسان رہے۔ ان کی ذات کی بے شمار صفات پر سیکڑوں صفحات رقم کیے جائیں اور ایسی عظیم شخصیت کی پاک زندگی کے ایک ایک گوشے کو ظاہر کیا جائے، تاکہ قحط الرجال کے اس دور میں ہم جیسے نو آموزوں کے حوصلوں کو مہمیز ملے اور جماعت کے تعلق سے کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ تاریخ اہلِ حدیث کا شیدائی ہونے کے ناتے جب میں نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا توعجیب چاشنی ملی۔ اس سے قبل جماعت کے تعلق سے واضح موقف نہ ہونے کے سبب احساسِ کمتری
Flag Counter