Maktaba Wahhabi

361 - 924
ملتِ اسلامیہ کا تاریخی سرمایہ ۔۔۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تحریر: مولانا شفیق الرحمن فرخ۔ لاہور ملتِ اسلامیہ کا عظیم علمی، تاریخی اور صحافتی سرمایہ بہ شکل مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ بھی ساندہ لاہور میں اپنا خود تیار کردہ آشیانہ چھوڑ کر شہرِ خموشاں میں دو گز زمین کا ٹکڑا اور ایک سادہ پر وقار سفید کفن لے کر اپنی آخری منزل میں محوِ استراحت ہو گیا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ہم سب کو خود ہی اپنی اس حقیقی منزل میں جانے کے لیے تیار رہنا چاہیے، مگر دنیا کی زرق برق رونقیں اور چکا چوند بجلیاں ہمیں اس طرف کا سوچنیں بھی نہیں دیتیں ، لیکن مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے خود اپنی حیات مستعار میں جب اپنی خود نوشت ’’گزر گئی گزران‘‘ لکھ دی اور وہ زیور طباعت سے آراستہ ہو کر قارئین کے ہاتھوں پہنچ گئی تو ہر شخص کو یہ معلوم ہوگیا کہ وہ حکم ربی پر کس قدر اپنا سر تسلیم خم کر کے بیٹھے ہیں ۔ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے مدیر محترم فضیلۃ الشیخ مولانا حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ کی دعوت پر کئی دفعہ جامعہ تشریف لائے، وہ لکھوی خاندان سے بہت محبت کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ پر جو کتاب تحریر فرمائی، اس میں خاندان لکھویہ سے اپنی نسبت اور محبت کا کھل کر اظہار فرمایا، ان کی دیگر تصانیف میں بھی اس خاندان سے ان کی محبت کا تذکرہ ملتا ہے، شاید اسی مناسبت سے ملک کے طول و عرض کے مشاہیر علمائے کرام سے انتہائی قریبی تعلقات کے باوجود انھوں نے وصیت فرمائی کہ ان کا جنازہ بھی اسی خاندان کا فرد پڑھائے گا۔ پروفیسر حماد لکھوی حفظہ اللہ نے ان کی نمازِ جنازہ ناصر باغ کے وسیع چمن زار میں انتہائی رقت سے پڑھائی، جس میں خود فضیلۃ الشیخ مولانا حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ اور ہم اساتذہ جامعہ شامل ہوئے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ خود تو پی ایچ ڈی نہیں تھے، مگر کئی ڈاکٹرز ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر کے ڈگری ہولڈرز بنے۔ وہ انتہائی دھیمے لہجے کے مالک تھے، مگر بذلہ سنجی میں ان کا مقابلہ بڑے بڑے نہ کر پاتے۔ ان کی تحریروں میں کھو جانے والا کبھی اکتا نہیں سکتا، بلکہ انھیں پڑھنے والے کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ گویا حالات و واقعات میں وہ ان کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے میری نسبت یہ بھی تھی کہ وہ میری دادی اماں سلامت بی بی کے سابق شوہر تھے۔ ہمارا ان سے باقاعدہ تعلق رہا اور میں کئی بار ان سے ملنے کے لیے ان کے دولت خانہ چلا جاتا۔ ان کے بھائی جناب
Flag Counter