Maktaba Wahhabi

372 - 924
مخدومِ گرامی حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کا سفرِ آخرت تحریر: جناب محمد سلیم چنیوٹی۔ لاہور مخدومِ گرامی حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی کہ جنھیں آج مرحوم لکھتے ہوئے قلم کانپ رہا اور دل پسیج رہا ہے۔ آہ۔۔۔! وہ شخص کہ جس کے جانے سے محفلِ دوراں بے رونق سی ہو گئی اور جس کے جانے سے منظرِ صحافت و تحقیق دھندلا دھندلا سا لگ رہا ہے۔ بھٹی صاحب مرحوم ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۵ء بروز بدھ دار الدعوۃ السلفیہ کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ جوں ہی دفتر ’’الاعتصام‘‘ میں قدم رنجہ ہوئے تو سانس پھولا ہوا تھا۔ ہم آگے بڑھے اور انھیں کر سی پر بٹھایا۔ محترم حافظ احمد شاکر صاحب نے دریافتِ احوال کیے۔ راقم نے عرض کیا: حضرت! کیا حال ہیں ؟ فرمانے لگے: سلیم میاں ! حال کیسے ہیں ، تھوڑا سا چلتا ہوں تو سانس پھولنے لگتا ہے۔ اسی اثناء میں حضرت مولانا ارشاد الحق اثری تشریف لائے تو انھیں فرمانے لگے: یار آپ تو سارے ہی سفید ہو گئے ہیں (حضرت کی ریش مبارک کی طرف اشارہ تھا کہ بال بالکل سفید ہو گئے ہیں )پھر از راہِ تفنن فرمانے لگے: کیا اندر سے بھی سفید ہی ہیں ؟ پھر اس قسم کی لطیف اور خوب صورت باتیں ارشاد فرماتے رہے۔ موقع محل کے مطابق مرحوم بڑی دلچسپ باتیں کرتے تھے کہ اس پیرانہ عمری میں عام طور پر تو آدمی کھل کر بات بھی نہیں کر سکتا۔ آپ دنیائے رنگ و بو میں ۱۵؍ مارچ ۱۹۲۵ء کو تشریف لائے اور آپ نے اکیانوے(۹۱)برس طبعی عمر پائی۔ اللہ کا ان پر خاص فضل و کرم رہا کہ ہمیشہ خوش طبع رہے۔ مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کے پاس کئی ایک رسائل و جرائد بذریعہ ڈاک آتے تھے۔ کئی ایک اہلِ علم و قلم انھیں خطوط لکھتے تھے۔ اکثر ان سے فون یا موبائل پر رابطے کرتے تھے۔ کئی ایک اہلِ علم و قلم ان کے ہاں چل کر جاتے تھے اور آپ ہر کسی سے انکساری سے مصافحہ و معانقہ فرماتے تھے۔ گرم جوشی سے ملتے بھی، تواضع چائے وغیرہ اور کھانے تک سے نوازتے تھے۔ نو آموز اہلِ قلم کی بڑی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ راقم کے ساتھ بڑی محبتیں اور شفقتیں تھیں ۔ ان کی وفات تو مجھے وفات نہیں لگتی بلکہ ان کا چہرہ ایسے ہی سامنے ہے
Flag Counter