Maktaba Wahhabi

376 - 924
مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ۔۔۔ کچھ یادیں کچھ باتیں تحریر: جناب مولانا عبدالمجید محمد حسین بلتستانی۔ کراچی ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ جو اس عہد کے عظیم تاریخ دان، مصنف اور مؤلف تھے، جن کے اشہبِ قلم نے کئی گمنام لوگوں کو زینتِ کتاب بخشا اور ان کے کارناموں کو حوالۂ قرطاس کر کے اس عہد میں بسنے والے انسانوں کو ان کے بارے میں بھرپور معلومات فراہم کیں ، یہ یقینا ان کی عظیم خدمت ہے اور آخر وقت تک اس خدمت کو انجام دیتے ہوئے وہ اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ اس عاجز کو بھی ان کے ساتھ عقیدت کا تعلق تھا۔ ان کی زیارت کے مواقع دو مرتبہ میسر آئے۔ پہلی بار ان کی زیادت ۲۰۰۶ء میں نصیب ہوئی۔ عصر کے بعد ان کے گھر واقع ساندہ حاضر ہوا اور ان کی زیارت کی۔ یہ جون کا مہینا تھا، موسم کے مطابق مشروباتِ باردہ سے تواضع کی اور ان سے اپنی ایک ڈائری پر ’’آٹو گراف‘‘ لیا(تلاشِ بسیار کے باوجود وہ ڈائری نہ مل سکی، ورنہ ان کے لکھے ہوئے الفاظ کو میں یہاں درج کرتا)۔ دوسری بار ۲۰۱۱ء میں ان کی زیارت کا شرف حاصل ہو۔ البتہ خطوط اور ٹیلی فون کے وسیلے سے آخری وقت تک رابطہ رہا۔ ۲۰۰۸ء کو جب میں تعلیم کے سلسلے میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ چلا گیا تو وہاں جا کر بھی ٹیلی فون اور خطوط کا یہ سلسلہ قائم رہا۔ میں اکثر ہفتہ عشرہ بعد انھیں فون کیا کرتا تھا۔ میرے بعض خطوط کے جواب انھوں نے جامعہ اسلامیہ کے پتے پر بھی دیے۔ فون پر اُن سے طویل گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ ایک بار انھوں نے مجھے خود میرے سعودیہ کے نمبر پر کال بھی کی تھی۔ ان کی مزاح کی حس بڑی اعلیٰ و عمدہ تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے انھیں لاہور کے ایک مقام چوک یتیم خانہ سے فون کیا،(ملاقات کی غرض سے ان کے گھر کا پتا پوچھنا تھا)عرض کیا کہ چوک یتیم خانے سے فون کر رہا ہوں تو فرمانے لگے کہ ’’افسوس کہ اس عمر میں یتیم خانے پہنچ گئے!‘‘ دوسری بار ۲۱؍ جون ۲۰۱۱ء کو جب میں جامعہ اسلامیہ سے سالانہ چھٹیوں پر پاکستان آیا تو بلتستان جاتے ہوئے ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ میں ان کے لیے آبِ زم زم اور عجوہ کھجور بطور تحفہ لے کر گیا تھا، جسے دیکھ کر بہت
Flag Counter