Maktaba Wahhabi

420 - 924
میاں عبدالعزیز مالواڈہ رحمہ اللہ تحریر: جناب محمد سلیم چنیوٹی۔ لاہور زیرِ تبصرہ کتاب برصغیر کے اس نابغہ عصر کی سوانح حیات ہے، جس کی تمام زندگی ملک و قوم کی خدمت میں گزری۔ اس شخصیت نے اپنی خدمات کا آغاز اپنی جوانی ہی میں کر دیا تھا، جب کہ برصغیر کی زمامِ حکمرانی انگریزوں کے ہاتھ میں تھی۔ اس شخصیت کو میاں عبدالعزیز مالواڈہ رحمہ اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ میاں عبدالعزیز بیرسٹر ایٹ لاء لاہور کے آرائیں خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ وہ امرتسر میں ۱۹؍ اگست ۱۸۷۲ کو پیدا ہوئے اور چند دن کم ایک صدی اس دنیا میں گزار کر ۲۸؍ جنوری ۱۹۷۱ء کو راہیِ ملکِ بقا ہوئے۔ جدوجہدِ آزادی میں جن مسلم اکابر نے حصہ لیا، ان میں علما، سیاست دان، ادبا، شعرا، سماجی کارکن، ماہرینِ قانون اور ماہرینِ تعلیم سبھی شامل تھے۔ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کی اس کہکشاں میں ہمیں بڑے بڑے نام ملتے ہیں ، جنھوں نے بڑے بڑے کام کیے اور وہ ہمارے ذہنوں میں نقش ہوگئے ہیں ۔ مگر میاں عبدالعزیز بیرسٹر رحمہ اللہ کی خدماتِ جلیلہ ایسی ہیں کہ جن کو ملی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی خدمات کا مرکز قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ میاں عبدالعزیز مالواڈہ رحمہ اللہ کے والدِ گرامی مولوی الٰہی بخش وکیل تھے۔ وہ انجمن ’’حمایتِ اسلام‘‘ لاہور کے بانی راہنما تھے۔ جماعتِ مجاہدین کے ساتھ مسلکی و فکری طور پر منسلک تھے۔ ان کا انتقال لاہور میں ۵؍جون ۱۹۲۰ء کو ہوا۔ میاں عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ذہنی تربیت اسی خاندان میں ہوئی تھی۔ میاں عبدالعزیز رحمہ اللہ احکامِ دینیہ کے شناور تھے۔ خدمتِ خلق کے جذبے سے ان کا دل معمور تھا اور وطن کے لیے محبت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ ان کا گھر مالواڈہ ہاؤس واقع بیرون یکی دروازہ لاہور ہمیشہ سیاسی، دینی، ملی اور سماجی سرگرمیوں کا گہوارہ رہا۔ اسی گھر میں جدوجہدِ آزادی کی جن عظیم شخصیتوں کی آمد و رفت رہی، ان میں مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، حکیم محمد اجمل خان، مسٹر گاندھی اور دیگر بہت سے حضرات شامل تھے۔ جب یہ راہنما سانحہ جلیاں والا باغ کے بعد ۱۹۱۹ء میں لاہور پہنچے تھے تو ان کا استقبال اور قیام اسی مالواڈہ ہاؤس میں ہوا تھا، اور جب ۱۹۳۲ء میں مسلم لیگ کو ایک فعال جماعت بنانے کا عزم کیا گیا تو بانیِ پاکستان اسی گھر میں تشریف لائے تھے اور متعدد سرکردہ لوگوں کی موجودگی میں یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا جو بعد میں قیامِ پاکستان کا باعث بنا۔ زیرِ تبصرہ کتاب کا ایک ایک ورق معلومات کا خزینہ ہے اور پوری کتاب
Flag Counter