Maktaba Wahhabi

435 - 924
محفلِ دانش منداں تحریر: جناب ڈاکٹر زاہد منیر عامر۔ لاہور تذکرہ نگاری ہماری ادبی اور تہذیبی روایت کا حصہ ہے۔ مختلف فنون کے صاحبانِ کمال کے تذکرے ہمارے ہاں بہ کثرت لکھے گئے ہیں ۔ ایسے تذکروں کی بھی کمی نہیں جن میں کسی خاص فن کا نہیں بلکہ لکھنے والے کے مذاق یا تعلق کا لحاظ غالب ہوتا ہے۔ ایسے تذکرے بھی مختلف فنون کی تاریخوں میں اساسی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ بن جایا کرتے ہیں ۔ تاریخ نگار سے جس معروضیت کا مطالبہ کیا جاتا ہے، تذکرہ نگار عام طور سے ویسی معروضیت سے آزاد ہوتا ہے اور اپنے ربط و تعلق کی روشنی میں موضوع بننے والی شخصیت کا جائزہ لیتا اور قاری کو اس کی تصویر دکھاتا ہے۔ تذکرہ نگار یا شخصیت نگار موضوع میں سے اپنے پسندیدہ نقوش تو چن سکتا ہے، لیکن اسے وہ سہولت بہر حال میسر نہیں ہوتی جو ایک کہانی کار کو حاصل ہوتی ہے کہ کہانی کار کی انگلیاں کوزہ گر کی طرح جیسے چاہیں کہانی کے کوزے کی تعمیر و تشکیل کر سکتی ہیں ، جب کہ شخصیت نگار کی دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ وہ شخصیت کے وہی خدوخال پیش کرے، جو اس میں واقعتا موجود تھے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ ہمارے عہد کے نمایاں ترین تذکرہ نگاروں میں سے تھے۔ انھوں نے بڑے پیمانے پر تذکرہ نگاری یا شخصیت نگاری کی ہے۔ ان کی شخصیت نگاری کے دو ضخیم مجموعے ’’نقوش عظمتِ رفتہ(۱۹۹۶ء)‘‘ اور ’’بزمِ ارجمنداں (۱۹۹۹ء)‘‘ خاص طور سے قارئین کی بارگاہ میں مقبول ٹھہرے ہیں ۔ مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی زندگی کو بہ آسانی تین ادوار میں تقسیم کر کے مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔پہلا وقفہ ان کی ابتدائی زندگی سے لے کر ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے ان کی وابستگی تک کا ہے، جسے اُن کی زندگی کا تشکیلی دور بھی کہا جا سکتا ہے۔ دوسرا اور اہم ترین دور وہ ہے جب وہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۶۵ء کو ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے وابستہ ہو گئے۔ یہ ان کی زندگی کا اہم ترین دور ہے، جس میں انھوں نے متعدد قابلِ توجہ علمی کام کیے، جن میں ابن ندیم کی ’’فہرست‘‘ کا اردو ترجمہ، برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ، فقہائے ہند(دس جلدیں )، برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش اور لسان القرآن کی توسیع شامل ہیں ۔ افسوس کہ ابھی ان کی فعال علمی زندگی کا ایک بڑا حصہ باقی تھا کہ ادارے سے ان کا انسلاک ختم کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں ادارہ ایک ایسے معمار اور جوہر قابل سے محروم ہو گیا، جس کی تلافی آج تک ممکن نہ ہو سکی۔ اہلِ کمال کو نظیر اہلِ جہاں نے کیا دیا اہلِ جہاں کو کیا نہیں اہلِ کمال دے گئے
Flag Counter