Maktaba Wahhabi

448 - 924
سے بھی ہیں اور حفظ و عدالت کے اعتبار سے بھی۔ محدثین عالی مقام رحمہم اللہ نے یہ خدمت نہایت دیانت داری اور بلاخو ف لومتہ لائم سرانجام دی۔ راویوں کی تدلیس کی وضاحت کی، ان کی مراسیل کی نشان دہی کی اور موقوفات کو صراحت سے بیان کیا۔ راویوں کے ضعف و غرابت کو واضح فرمایا اور ان کے ذہول و نسیان کو اُجاگر کیا۔ ان کے تعصب فی المذہب کو صاف الفاظ میں نمایاں کیا، کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا معاملہ تھا اور اس میں کھرے کھوٹے کا امتیاز اسی طرح ممکن تھا۔ اس کے علاوہ احادیث کے تحفظ و استناد کی کوئی صورت نہ تھی۔ اگر کسی راوی میں محدثین رحمہم اللہ کی قائم کردہ شرائط پائی جاتیں تو اس کی روایت قبول کرلی جاتی، ورنہ اسے ترک کر دیا جاتا۔ اس ضمن میں یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ سے کسی نے کہا: ’’أما تخشی أن یکون ھؤلائِ الذین ترکت حدیثھم خصماؤک یوم القیامۃ؟‘‘ ’’کیا آپ اس بات سے نہیں ڈرتے کہ جن لوگوں کی روایت کو آپ نے ترک کیا ہے، وہ قیامت کے روز آپ سے جواب طلبی کریں ؟‘‘ اس کے جواب میں ان کے الفاظ یہ تھے: ’’لأَ ن یکون ھؤُلائِ خصمي أحب إلي من أ ن یکون خصمي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لِمَ لَم تذب عن حدیثي؟‘‘ ’’یعنی ان لوگوں کی مجھ سے جواب طلبی کرنے سے کہیں بڑھ کر مجھے یہ خوف لاحق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے جواب طلبی کریں اور پوچھیں کہ تم نے میری حدیث کا دفاع کیوں نہیں کیا؟‘‘ روایتِ حدیث میں اسناد کا التزام: پھر محدثین رحمہم اللہ نے سند کا التزام کیا اور ہر روایت بااسناد بیان کی۔ ان کے نزدیک سندکو دین کے جزوِ لاینفک کی حیثیت حاصل ہے۔ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’الإسناد من الدین، لولا الإسناد لقال فیہ من شاء بما شائ‘‘ ’’اسناد کا معلوم کرنا دین کاحصہ ہے۔ اگر اسناد نہ ہو تو پھر ہر شخص دین کے بارے میں جوچاہے بیان کرتا پھرے۔‘‘ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : ’’بیننا وبین القوم القوائم یعني الإسناد‘‘ (صحیح مسلم، جلد اول، شرح نووی، ص: ۱۲، طبع نور محمد أصح المطابع وکارخانہ تجارت کتب، کراچی) ’’ہم میں اور ان واضعینِ حدیث میں اسناد کا فرق ہے۔ یعنی ہم اسناد کا التزام کرتے ہیں اور یہ لوگ اسناد کی پروا کیے بغیر جو جی چاہے بیان کر دیتے ہیں ۔‘‘
Flag Counter