Maktaba Wahhabi

457 - 924
سوم: جہاد اس کیفیت پر دلالت کناں ہے کہ جس شخص نے قربانی و ایثار کے اس مقام تک رسائی حاصل کرلی، وہ اللہ کے ساتھ تعلق کو اس قدر اہمیت دینے لگتا ہے اور اللہ کی محبت کا نشہ اس درجے اس پر طاری ہو جاتا ہے کہ اس کے مقابلے میں ہر شے ہیچ نظر آتی ہے اور اس کے قلب و روح کے نہاں خانے میں ایسی کیفیتیں کروٹ لینے لگتی ہیں اور اللہ سے لگاؤ کا معاملہ اس حدتک بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنے جسم وجان پر بھی تعلق باللہ کو ترجیح دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ چہارم: پھر ان کیفیتوں اور سرشاریوں کی تہہ سے بالکل ایک نیا اخلاق اُبھرتا ہے اور نئی روحانیت جنم لیتی ہے، جس سے غیر مسلم تو رہے ایک طرف، حیوان بھی اپنے آپ کو ظالم طاقتوں کی دست برد سے محفوظ پاتے ہیں ۔ مسلمانوں کی مسجدوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے صومعوں ، عیسائیوں کے گرجوں ، ہندوؤں کے مندروں اور سکھوں کے گوردواروں ، غرض دنیا کے تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا بدرجۂ اتم اہتمام ہو جاتا ہے۔ نہ کسی کا درخت کاٹو، نہ کسی کا جانور مارو، نہ کسی کا مکان منہدم کرو، نہ عبادت خانوں کو مسمار کرو۔ واضح الفاظ میں کہنا چاہیے کہ جہاد فرض ہی مظلوم کے تحفظ، کم زور کی نصرت اور ستم زدہ کو امن کی ضمانت فراہم کرنے کے لیے ہوا ہے۔ اس ضمن میں قرآن کے الفاظ ناطق ہیں : ﴿ أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ﴾ [الحج: ۳۹] ’’جن لوگوں کے خلاف خواہ مخواہ جنگ کی جاتی ہے، انھیں اجازت ہے کہ وہ بھی جنگ کریں ، کیوں کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔‘‘ یعنی جنگ کا حکم ہی اُن لوگوں کو دیا گیا جو مظلوم ہیں ، تاکہ وہ ظالم کا ہاتھ اپنی طرف بڑھنے سے روکیں ۔ اس سے آگے فرمایا: ﴿ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ ﴾ [الحج: ۴۰] ’’اور اگر اللہ بعض آدمیوں کے ہاتھوں بعض آدمیوں کی مدافعت نہ کراتا تو کسی قوم کی عبادت گاہ زمین پر محفوظ نہ رہتی، خانقاہیں ، گرجے، عبادت گاہیں ، مسجدیں سب کبھی کے ڈھائے جاچکے ہوتے۔‘‘ یعنی ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ظلم و تشدد کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دینا، جہاں عام لوگوں کی تباہی کا باعث بنتا، وہاں عبادت گاہیں بھی زمین بوس ہو جاتیں ۔ پتا چلا کہ جہاد کا مقصد اصلی ظالم کو ظلم سے روکنا اور طاقت ور کے مقابلے میں ضعیف و ناتواں کی مدد کرنا ہے۔ اسلام کی ایجابی قدر: جہاد، اسلام کی ایک مستقل قدر ہے اور اس کی حیثیت اسی طرح ایجابی ہے، جس طرح کہ اللہ کی توحید کی، نماز روزے کی اور حج و زکاۃ کی ایجابی حیثیت ہے۔ اس کا تعلق کسی مخالف یا دشمن سے نہیں ، کسی ملک اور قوم سے نہیں بلکہ اس کا تعلق براہِ راست اللہ کے دین پر عمل پیرا ہونے سے اور اس کی برکات کو تمام نوع انسانی تک پہنچانے اور عام
Flag Counter