Maktaba Wahhabi

459 - 924
﴿ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ ﴾ [الأنفال: ۶۰] یعنی ’’جہاں تک ہوسکے فوج کی جمعیت کے زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے دشمنوں کے مقابلے میں مستعد رہو، تاکہ اللہ کے دشمنوں کے اور تمھارے دشمنوں کے دل میں تمھاری ہیبت بیٹھی رہی۔‘‘ لیکن قرآن کے اس حکم کے مقابلے میں ہمارا عمل یہ ہے کہ ہم رقص و سرود اور ناچ گانے میں مستعد ہیں اور یہی تعلیم اپنے بچوں کو دیتے ہیں اور اس تعلیم اور عمل پر بے حد خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔إنا ﷲ و إنا إلیہ راجعون‘‘ 3۔ برصغیر کی تحریکِ آزادی میں علمائے کرام کا حصہ یہ اہم مقالہ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے ۱۴؍ اگست ۲۰۰۳ء کو گوجرانوالہ میں ’’صقارین میڈیا نیٹ ورک، پاکستان‘‘ کے اجتماع میں پڑھا تھا۔ ’’یہ عالمِ ہست و بود بے شمار آلام و حوادث کی جولان گاہ ہے، جو ہمیشہ زمانے کی رفتار کے ساتھ سطح ارض پر نمودار ہوتے رہتے ہیں ۔ ان میں سے بعض کے دوائرِ عمل اتنے محدود اور اثرات و نتائج اس درجہ ناپائیدار ہوتے ہیں کہ انھیں ناقابلِ اعتنا سمجھ کر ترک کر دیا جاتا ہے اور تاریخ کے صفحات میں انھیں کوئی جگہ نہیں دی جاتی، لیکن بعض واقعات و حوادث ایسے ہوتے ہیں ، جو اپنے خوش گوار یا ناخوش گوار اثرات کی وسعت و شدت کی بنا پر عرصۂ دراز کے لیے یادوں کے گہرے نقوش اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور تاریخ کے اوراق انھیں نمایاں جگہ دیتے ہیں ۔ پھر ان واقعات کی وجہ سے قوموں اور ملکوں کی تقدیر کا دھارا اپنا رخ بدلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ قمری حساب ۲۸؍ رمضان المبارک ۹۰۳ھ، عیسوی حساب ۲۰؍ مئی ۱۴۹۸ء کی تاریخ تھی اور اتوار کا دن تھا کہ جنوبی ہند کی بندرگاہ کالی کٹ کے ساحل پر ایک واقعہ پیش آیا جو اس وقت اپنی نوعیت کے اعتبارسے اتنا معمولی اور اتنا چھوٹا تھا کہ کسی نے اسے اہمیت نہ دی، لیکن آگے چل کر یہ واقعہ برصغیر کی تجارتی اور سیاسی فضا میں ایسے اسباب پیدا کرنے اور ایسے عناصر کے قدم جمانے کا باعث بن گیا کہ یہ برصغیر اجنبی اقتدار کی زنجیروں میں جکڑا گیا اور طویل مدت تک محکومی و غلامی کی سزا بھگتتا رہا۔ یہ واقعہ تھا ہندوستان میں پرتگیزوں کی آمد کا جو واسکوڈی گاما کی قیادت میں چار چھوٹے جہاز لے کر ایک عرب ماہر بحریات احمد بن ماجد نجدی کی راہنمائی میں راسِ اُمید کا چکر کاٹتے ہوئے کالی کٹ کے ساحل پر اترے تھے۔ اس واقعے کے بعد انگریزوں کے یہاں تک پہنچنے کے لیے راستہ ہموار ہوگیا۔ پھر اس ملک کے سیاسی اُفق پر، جس کا کاشانۂ تقدیر کافوری شمعوں سے جگمگا رہا تھا، سیاہ بادل چھاگئے اور وہ سفید یورپی عناصر، جو تجارتی لحاظ سے تاریک گوشوں میں سمٹے بیٹھے تھے، ممتاز حیثیت اور نئی شان وشوکت سے اُبھر کر سامنے آئے۔
Flag Counter