Maktaba Wahhabi

467 - 924
4۔ تحریکِ پاکستان میں مسلم صحافت کا کردار ۱۴؍ جون ۲۰۰۶ء کو روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے دفتر میں ایک فکری نشست ’’تحریکِ پاکستان میں مسلم صحافت کا کردار‘‘ کے موضوع پر ہوئی۔ اس نشست میں متعدد حضرات نے مقالے پڑھے یا تقریریں کیں ۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے بھی اس موضو ع پر ایک مقالہ پڑھا، جس کے بعض اقتباسات ۱۶؍ جون کے ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہوئے۔ یہاں حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا پورا مقالہ درج کیا جاتا ہے۔ ’’تحریکِ پاکستان کے زمانے میں متحدہ ہندوستان کی مسلم صحافت دو حصوں میں منقسم تھی۔ ایک حصہ اس مسلم صحافت کا تھا جو آزادیِ ملک کے ساتھ ساتھ حصولِ پاکستان کے لیے سخت ترین جدوجہد کر رہا تھا۔ دوسرا حصہ وہ تھا جو صرف آزادیِ ملک کا حامی تھا اور تحریکِ پاکستان سے اختلاف رکھتا تھا۔ یہ آج سے کم و بیش ستر سال پہلے کی بات ہے، جس نے ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد کے بعد زیادہ زور پکڑ لیا تھا۔ اس وقت کلکتہ، بمبئی، دہلی اور لاہور کو صحافت کے مراکز کی حیثیت حاصل تھی۔ ان بڑے شہروں کے علاوہ بھی مختلف مقامات سے بہت سے اخبارات شائع ہوتے تھے اور اپنا ایک مقام رکھتے تھے۔ اردو، انگریزی، بنگلہ، گجراتی وغیرہ زبانوں کے اخبارات کا ایک سیلاب تھا، جس سے لوگ بے حد متاثر تھے۔ بمبئی کا روزنامہ ’’انقلاب‘‘ اپنا ایک اثر رکھتا تھا جو اُردو میں رئیس احمد جعفری مرحوم کی ادارت میں شائع ہوتا تھا اور تحریکِ پاکستان کا سخت ترین حامی تھا، اس حمایت کا رئیس احمد جعفری کو خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ کلکتہ سے مولانا محمد اکرم خان کا اخبار ’’آزاد‘‘ جاری تھا۔ جو بنگلہ زبان کا اخبار تھا اور بہت پڑھا جاتا تھا۔ بنگال کے لوگ نہایت شوق اور ایک خاص جذبے کے ساتھ اس کا مطالعہ کرتے تھے۔ یہ اخبار پاکستان کی تحریک کا زوردار مبلغ تھا۔ اسی طرح دہلی کی مسلم صحافت میں سے ڈان، انجام، جنگ وغیرہ کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ لاہور بالخصوص مسلم صحافت کا مرکز تھا۔ اس شہر کے روزناموں میں سے زمیندار، احسان، انقلاب، سیاست اور نوائے وقت خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ یہ اخبارات تحریکِ پاکستان کے موید بلکہ مبلغ تھے۔ ’’انقلاب‘‘ کے مدیرانِ کرام تھے: مولانا غلام رسول مہر اور مولانا عبدالمجید سالک۔ دونوں بہت پڑھے لکھے اور ایک خاص اسلوبِ تحریر کے مالک بلکہ موجد تھے۔ تحریکِ پاکستان کے سرگرم دور میں پنجاب کی زمامِ وزارت یونینسٹ پارٹی کے ہاتھ میں تھی۔ ۱۹۳۵ء کے قانون کے تحت صوبائی وزیرِ اعلیٰ کو وزیرِ اعظم کہا جاتا تھا۔ پنجاب کے پہلے وزیرِ اعظم سر سکندر حیات تھے۔ ان کی وفات کے بعد اس منصب پر ملک خضر حیات خان کو فائز کیا گیا تھا۔ صوبہ پنجاب اس زمانے میں اکتیس اضلاع پر مشتمل تھا، جو اٹک کی لہروں سے لے کر دلی کی دیواروں تک پھیلا ہوا تھا۔ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ کی پالیسی یہ تھی کہ وہ پنجاب کی صوبائی سیاست میں یونینسٹ پارٹی کا حامی تھا اور مرکزی سطح پر مسلم لیگ کے نقطۂ نظر کا مبلغ تھا۔
Flag Counter