Maktaba Wahhabi

480 - 924
لیے کوشاں ہوں گے۔ دوسری جیل کے لوگ بھی جنھوں نے پہلے گروہ کو دیکھا یا ان کے ساتھ کام کیا، وہ بھی اس کی حفاظت اور ترقی کے لیے جدوجہد کریں گے۔ تیسری جیل اس سلسلے میں سستی کاشکار ہو جائے گی اور چوتھی جیل میں یا تو معاملہ ختم ہوجائے گا یا اس میں اتنی کمزوریاں اُبھر آئیں گی کہ سلسلہ اختتام کی حدوں کے قریب جا پہنچے گا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ لکھوی خاندان کے علما نے ابن خلدون کے اس نظریے کی تغلیط کردی۔ انھوں نے تین سو سال قبل تدریس کا جو سلسلہ نہایت محدود پیمانے پر چند گھروں کی ایک چھوٹی سی بستی میں شروع کیا تھا، وہ بڑے بڑے مشہور شہروں ، بلکہ ملکوں میں پہنچا اور آثار بتاتے ہیں کہ ان شاء اللہ مزید ترقی کی منزلیں طے کرے گا۔ ان سطور میں ان حضرات کی سیاسی خدمات کا میں نے تذکرہ نہیں کیا، اپنی گزارشات کو تصنیفی و تدریسی اور خطابتی خدمات تک محدود رکھا ہے، وہ بھی نہایت اختصار کے ساتھ۔ ان خدمات میں پنجاب بلکہ کہنا چاہیے کہ برصغیر کا کوئی اہلِ حدیث خاندان ان کا حریف نہیں ہے۔‘‘ 6۔ حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ اور اُن کی تالیف میزانِ مناظرہ سلطانُ المناظرین حضرت مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ کی علمی خدمات کا چرچا ایک جہاں میں ہے۔ آپ کی مشہور زمانہ کتاب ’’میزانِ مناظرہ‘‘ پر تبصرہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں : ’’پنجاب کے روپڑی خاندان کی خدماتِ دینی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ تقریباً دوسوسال پیشتر اس خاندان کے اکابر ضلع گوجرانوالہ کے ایک قصبے ایمن آباد میں فروکش تھے۔ وہاں سے یہ لوگ ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالا کے ایک گاؤں کمیرپور میں منتقل ہوگئے۔ ان میں ایک بزرگ میاں روشن دین رحمہ اللہ تھے، جو نہایت عبادت گزار تھے اور ان کا زیادہ وقت اہلِ علم کی رفاقت میں گزرتا تھا۔ انھوں نے تحصیلِ علم کے لیے ضلع فیروز پور کے ایک معروف گاؤں ’’لکھو کے‘‘ کا عزم کیا اور حضرت حافظ محمد لکھوی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضری دی اور اُن سے تھوڑا بہت استفادہ کیا۔ میاں روشن دین رحمہ اللہ کے سات بیٹے تھے، جن کے علی الترتیب نام یہ تھے: رکن الدین، رحیم بخش، حافظ عبداللہ، عبدالواحد، عبدالقادر، حافظ محمد حسین اور حافظ عبدالرحمن۔ ان میں سے حافظ عبداللہ اور حافظ محمد حسین نے حلقۂ اہلِ علم میں بے حد شہرت پائی۔ یہ دونوں وہی بزرگ ہیں جنھیں حضرت مولانا حافظ عبداللہ روپڑی اورحضرت مولانا حافظ محمد حسین روپڑی رحمہما اللہ کے ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان ساتوں بھائیوں میں دوسرے نمبر پر میاں رحیم بخش کا نام آتا ہے۔ میاں رحیم بخش کے چار فرزند تھے: (1)۔ حافظ محمد۔ انھوں نے ۲۴؍ جنوری ۱۹۶۷ء کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں وفات پائی۔
Flag Counter