Maktaba Wahhabi

489 - 924
سے اس بنیادی کارِ خیر میں مشغول ہیں ۔ ’’تفسیر فضل القرآن‘‘ مندرجہ ذیل خصوصیات کی حامل ہے: اس میں اسلافِ امت کے زاویۂ فکرکو پیشِ نگاہ رکھا گیا ہے۔ ایک آیت کی تفسیر کے لیے دوسری آیت سے استدلال کیا گیا ہے۔ تفسیر میں کتبِ احادیث کے حوالے دیے گئے ہیں اور فرامینِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے استشہاد کیا گیا ہے۔ قدیم کتبِ تفاسیر سے مدد لی گئی ہے۔ ارشاداتِ صحابہ اور اقوالِ ائمہ عظام کو راہنما ٹھہرایا گیا ہے۔ تاریخی واقعات کے لیے اوّلیں مستند کتبِ تاریخ سے رجوع کیا گیا ہے۔ زبان و انداز میں موجودہ دور کے تقاضوں کو سامنے رکھا گیا ہے۔ حلِ لغات کے عنوان سے ہر آیت کے مشکل الفاظ کی لغوی تشریح کی گئی ہے۔ زبان عام فہم اورشستہ و رواں ہے۔ ان خصوصیات کی روشنی میں ’’تفسیر فضل القرآن‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جہاں یہ تفسیر عوام و خواص کے لیے نہایت مفید ہے، وہاں اس کا مطالعہ طلبا و علما کے لیے بے حد افادے کا باعث ہوگا۔ درسِ قرآن دینے والے حضرات کو اس سے بالخصوص استفادہ کرنا چاہیے۔ آخر میں ہم مولانا فضل الرحمن الازہری کی خدمت میں عرض کریں گے کہ وہ تفسیر نویسی کا یہ سلسلہ جاری رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ اس سلسلے میں ان شاء اللہ ان کا حامی وناصر ہوگا۔‘‘ 9۔ مقالاتِ راشدیہ(جلد چہارم) ایک اور کتاب پر تبصرہ ملاحظہ فرمائیں ۔ نام ہے: ’’مقالاتِ راشدیہ‘‘(جلد چہارم): ’’صوبہ سندھ کے اُفقِ علمی پر نگاہ ڈالیں تو ایک ایسا خاندان نظر آئے گا، جسے طویل مدت سے فضل و کمال کے مختلف گوشوں پر حکمرانی کا اعزاز حاصل ہے۔ اس خاندان کو ’’راشدی خاندان‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ ان میں ماضی قریب کے دو رفیع المرتبت بھائیوں سید محب اللہ شاہ راشدی اور سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہما اللہ کو موجودہ دور کے بے شمار لوگوں نے دیکھا اور اُن سے حصولِ فیض کیاہے۔ اردو، عربی اور سندھی میں ان دو راشدی برادران نے بے پناہ خدمات سرانجام دیں اور شائقینِ علوم ان سے مستفید ہوئے اور ہورہے ہیں ۔ مولانا افتخار احمد ازہری اور ان کے اصحابِ علم رفقا کے لیے بے ساختہ دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے کہ انھوں نے سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے سندھی زبان کے علمی ذخائر کو اُردو زبان میں منتقل کرنے کا عزم کیا ہے۔ اس سے قبل ’’مقالاتِ راشدیہ‘‘ کے نام
Flag Counter